پاکستان کو کوالا لمپور سمٹ میں شرکت سے نہیں روکا: سعودی عرب

سعودی عرب نے ترک صدر کے اس بیان کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ریاض نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے روکنے کے لیے دھمکی دی۔

19 دسمبر، 2019 کو جاری ہونے والی اس تصویر میں کوالالمپور سمٹ شروع ہونے سے قبل شرکا کا گروپ فوٹو (اے ایف پی)

سعودی عرب نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے اس بیان کی تردید کی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاض نے پاکستان کو ملائیشیا میں ہونے والے اسلامی ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے دھمکی دی۔

عرب نیوز کے مطابق ہفتے کو اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں صدر اردوغان کے حوالے سے چلنے والی ’بے بنیاد‘ خبروں کی تردید کی گئی۔

واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس میں ترک صدر کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے شرکت کی تو ریاض نہ صرف پاکستان کی اقتصادی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا بلکہ سلطنت میں کام کرنے والے 30 لاکھ پاکستانیوں کو بھی ملک بدر کر دے گا۔

سعودی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’سعودی عرب اور پاکستان کےمابین رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ ان کے درمیان دھمکیوں کی زبان استعمال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

’دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ یہ تعلقات دیرینہ دوستی اور سٹریٹجی پر قائم ہیں اور دونوں ملک بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی امور خصوصاً امت مسلمہ کے امور پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔‘

بیان کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مسلم اتحاد کے نظریے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کردار کو برقرار رکھنے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کو ایک کامیاب اور مستحکم ملک دیکھنا چاہتا ہے، سفارت خانے نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔

یاد رہے کہ ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد نے 18 سے 21 دسمبر تک کوالالمپور سمٹ کی میزبانی کی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کانفرنس میں اچانک شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر میڈیا کے بعض حلقوں نے قیاس آرائی کی کہ عمران خان نے یہ فیصلہ ولی عہد محمد بن سلمان کے دباؤ میں کیا، جن سے پاکستانی وزیراعظم نے چند روز قبل سعودی عرب میں ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب سعودی عرب میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط تھا اور کچھ مخصوص طبقات نے اپنے مفادات کے لیے من گھڑت کہانیاں بنائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریاض میں پاکستانی سفیر راجہ علی اعجاز نے ہفتے کو فون پر عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات مضبوط اور آزمائے ہوئے ہیں۔

’یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو سربراہی اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے کسی قسم کا دباؤ ڈالا، یہ سراسر بے بنیاد تاثر ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: سعودی عرب میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی موجود ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چار بار سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد بھی رواں سال کے آغاز میں پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں، جس سے ہمارے خوشگوار تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘

اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے کہا تھا کہ ملائیشیا اسلامی سربراہی اجلاس میں پاکستان نے اس لیے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ امت میں تقسیم کے بارے میں بڑے مسلم ممالک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے زیادہ وقت اور کوشش کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا تھا: ’پاکستان امت کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کام جاری رکھے گا جو مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا