یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

یہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے کہ وہ اس نظر ثانی درخواست کا کیا کرتی ہے۔ یہ عدالت کا استحقاق ہے۔ اگر عدالت اس نظرثانی درخواست کو مسترد کرتی ہے تو حکومت پر اپنی اور فوج کے سربراہ کی سبکی کا انتظام کرانے کا الزام لگے گا۔

 آرمی چیف کی مدت ملازمت فیصلے پر 26 دسمبر کو سپریم کورٹ میں داخل ںظرثانی درخواست میں صدر، وزیر اعظم اور سکریٹری دفاع کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی درخواست گزار بنایا گیا ہے (اے ایف پی فائل)

عمران سرکار پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گئی ہے۔ 26 دسمبر کو عدالت عظمی میں داخل ںظرثانی درخواست میں صدر، وزیر اعظم اور سکریٹری دفاع کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی درخواست گزار بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔

نومبر کے آخری ہفتے میں جب سپریم کورٹ میں ایک شخص ریاض حنیف راہی کی، جو غیر سنجیدہ درخواستیں دینے کے لیے بدنام ہے، درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی حکومت نے جنرل باجوہ کی تقرری، دوبارہ تقرری اور توسیع کے سرکاری حکم ناموں کا انبار لگا دیا۔ جس طرح اٹارنی جنرل انور منصور اور چند دنوں کے لیے مستعفی وزیر قانون فروغ نسیم نے قانونی قلابازیاں کھائیں انہیں دیکھ کر کمرہ نمبر ایک میں موجود اکثر صحافیوں کے سر چکرانے لگے تھے۔ تین دن بعد جب گرد بیٹھی تو حکومت نے ایک تحریری یقین دہانی عدالت میں جمع کرائی کہ حکومت جنرل باجوہ کی تقرری کے سلسے میں چھ ماہ کے اندرایسی ضروری قانون سازی کرائے گی جس کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم اور آئین کے آرٹیکل 243 کے دائرہ کارمیں ضروری وضاحت کی جائے گی۔ جب 28 نومبر کو یہ فیصلہ مختصر حکم کے ذریعے سامنے آیا تو حکومت کے اکثر زعما نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ آنے کے بعد اپنی ٹویٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو، جو اس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے، بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ریکارڈ ہی کے لیے: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا شمار ان عظیم ترین قانون دانوں میں ہوتا ہے جنہیں پاکستان نے جنم دیا چنانچہ میری نگاہ میں ان کی بلند پایہ قدر و منزلت ہے۔‘ صرف یہی نہیں بلکہ اس فیصلے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے انہوں نے مزید ٹویٹ فرمائی کہ ’‏اداروں کے مابین تصادم کے نتیجے میں پاکستان کو عدم استحکام کی آگ میں گرتا دیکھنے کے خواہاں عناصر کے لیے آج کا دن نہایت مایوس کن ثابت ہوا ہو گا اور خواہشات کے تاروپود بکھرتے دیکھ کر ہماری صفوں میں موجود مافیاز اور بیرونی دشمنوں کے سینوں پر بھی ضرور سانپ لوٹے ہوں گے۔‘

فیصلے کے چند گھنٹے بعد فروغ نسیم، اٹارنی جنرل انور منصور اور فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں اس فیصلے کی تعریف کی۔ لیکن چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے چھ روز بعد اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست نے بہت سے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔ ان ہی صفحات میں ہم نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا کہ حکومت نے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا۔

فیصلہ آنے کے دو روز بعد انڈپینڈنٹ اردو پر راقم نے لکھا تھا: ’فی الحال تو حکومت نے اس فیصلے کو بادل ناخواستہ قبول کر لیا ہے، لیکن دسمبر میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی رخصتی کے بعد حکومت کیا کرتی ہے وہ واضح نہیں۔‘

اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت جسٹس کھوسہ کی رخصتی کے بعد اس فیصلے سے متعلق جائزے کے لیے عدالت سے رجوع کرے۔ عدالتی کارروائی کے دوران اور فیصلہ آنے بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا میں عدالت اور خاص طور پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف طوفان بدتمیزی سے صاف ظاہر تھا کہ حکومت صرف جسٹس کھوسہ کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ نظرثانی درخواست میں اب اسی فیصلے پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے ہیں جس کی تعریف سرکاری طور پر کی گئی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کی جماعت، جس کی شناخت پر یو ٹرن کا ٹھپہ لگا ہوا ہے، کے اس نئے یوٹرن کے پیچھے مقاصد اور مضمرات پر بحث پھر چھڑ گئی ہے۔

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ فیصلہ آنے کے بعد پارلیمان میں موجود کسی جماعت نے جنرل باجوہ کی تقرری یا توسیع سے متعلق کوئی منفی بیان نہیں دیا۔ لیکن اس کے باوجود حکمران جماعت نے اس قانون سازی کے لیے، جس کی تحریری یقین دہانی انہوں نے سپریم کورٹ میں کرائی تھی، کسی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں کی۔ یہ شروع دن سے واضح تھا کہ حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرے گی۔ اور اب اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکثر قانونی ماہرین کے مطابق نظرثانی درخواست کی سماعت وہی جج کرتے ہیں جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا ہو۔ اب چونکہ جسٹس کھوسہ ریٹائر ہو چکے ہیں اس لیے نظرثانی بنچ میں وہ موجود نہیں ہوں گے لیکن قوی امکان ہے کہ باقی دو جج بشمول جسٹس منصور علی شاہ، جنہوں نے یہ فیصلہ تحریر کیا ہے، موجود ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اور جج بھی نظرثانی بنچ کا حصہ ہوں۔

اکثر ماہرین کے مطابق نظرثانی درخواست کے منظور ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن 28 نومبر کا فیصلہ تو حکومت کی تحریری یقین دہانی کے نتیجے میں آیا ہے۔ یہ فیصلہ تو ممکن ہی تب ہوا جب حکومت نے عدالت کے اس قانونی استدلال کو قبول کیا تھا کہ حکومت کے پاس دوبارہ تقرری یا توسیع سے متعلق کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ اسی لیے عدالت نے اس قانونی جواز کو پیدا کرنے کے لیے حکومت کو چھ ماہ کی مدت دی تھی۔ اب حکومت اپنی تحریری یقین دہانی سے مکر کر نظرثانی درخواست دائر کر چکی ہے۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ جب عدالت میں کوئی فریق عدالتی فیصلے کے بنیادی نکات کو قبول کر لے تو بعد میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی کھو بیٹھتا ہے۔ اپیل نظرثانی درخواست سے بڑا حق ہوتا ہے کیونکہ اپیل میں آپ فیصلے کے بنیادی نکات کو چیلنج کرتے ہیں جبکہ نظرثانی درخواست اس وقت کی جاتی ہے جب فیصلہ آنے کے بعد ایسے نئے حقائق سامنے آئیں جن کے سامنے آنے کے بعد فیصلہ مشکوک ہو جائے۔

کیونکہ حکومت نے اس کیس میں کسی مرحلے پر عدالت کے اس حق کو چیلینج نہیں کیا جس میں از سرنوتقرری اور توسیع پر وزیر اعظم اور صدر کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ درخواست میں جنرل باجوہ کو بھی درخواست گزار بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر درخواست مسترد ہوتی ہے تو سبکی صرٖف حکومت کی ہی نہیں بلکہ خود جنرل صاحب اور ان کے ادارے کی بھی ہوگی۔ ایسا کیوں کیا گیا ہے اس کی وضاحت تو حکومت ہی کرسکتی ہے لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ عمران حکومت ہرگز نہیں چاہتی کہ جنرل باجوہ کی تقرری کا کریڈٹ کسی طور پر بھی حزب اختلاف کو ملے۔ 

عمران سرکار، جو شہباز شریف اور بلاول کی ایوان کے اندر تبدیلی کے ذریعے عمران خان کی تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں، سخت پریشان ہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ اس عمل کے دوران کسی طور پر مقتدر حلقوں اور حزب اختلاف میں تعلقات نارمل ہو جائیں۔ عمران سرکار جو چھوٹے اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے اپنی مخلوط حکومت کی پائداری کے لیے مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت کو انشورنس پالیسی سمجھتی ہے۔ کسی طرح حکومت کو زعم ہے کہ جسٹس کھوسہ کی رخصتی کے بعد فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔

یہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے کہ وہ اس نظر ثانی درخواست کا کیا کرتی ہے۔ یہ عدالت کا استحقاق ہے۔ اگر عدالت اس نظرثانی درخواست کو مسترد کرتی ہے تو حکومت پر اپنی اور فوج کے سربراہ کی سبکی کا انتظام کرانے کا الزام لگے گا اور حکومت کمزور وکٹ پر حزب اختلاف کے پاس جانے کے لیے مجبور ہوگی۔ انتہائی قدم کے طور پر عدالت کہہ سکتی ہے کہ کیونکہ حکومت قانون سازی نہیں کرنا چاہتی اس لیے اب وزیر اعظم نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کریں۔ یہ ایک نئی صورت حال کو جنم دے گا جو بھی حکومت کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ لیکن اگر عدالت حکومت کی درخواست سو فیصد بھی قبول کرلے تو اس کے نتائج بھی اچھے نہیں ہوں گے۔

اگر عدالت حکومت کی درخواست مان لے تو ماہرین اور عوام میں عدالت کے خلاف یہ تاثر پیدا ہوگا کہ عدالت نے دباؤ میں آکر فیصلہ دیا ہے جو کسی صورت میں حکومت، فوج، ملک اور عدلیہ کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

حکومت ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس میں جیت اور ہار دونوں صورتوں میں نقصان پاکستان کا ہو گا۔

--------

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ