پین دی سری ہو سکتا ہے تو بھائی کی سری کیوں نہیں؟

ناٹ فنی کے نام سے شروع ہونے والی اس مہم میں ان لطیفوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہےجو عورتوں پر بنائے جاتے ہیں

معروف اینکر مدیحہ عابد علی ناٹ فنی مہم کی حمایت میں پلے کارڈ تھامے ہوئے

لطیفہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ اس پارٹی کے خلاف بنایا جاتا ہے جس سے کسی بھی قسم کا بدلہ لینا ہو یا کوئی پرانا حساب چکانا ہو۔ ہمارے قومی مزاح کے مطابق سکھ میں عقل ہو ہی نہیں سکتی، ہندو ڈرپوک اور کنجوس ہوتا ہے، بنگالی بھوکا ہوتا ہے اور عورت؟

عورت پر تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لطیفے کی سائنس ایسی ہے کہ اس میں فخر، غرور یا برتری کا ایک جذبہ اکثر اوقات کہیں نہ کہیں جھلک دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو تو لطیفہ کرارا نہیں رہتا۔ یہ فخر پدر سری نظام کا فخر ہے، یہ برتری اس نظام کی ہے جس میں بیوی کو خود عورت ہوتے ہوئے بھی مزاروں پہ جا کراولاد نرینہ کے لیے دعا مانگنا پڑتی ہے اور یہ غرور ان محاوروں کا ہے جن کے مطابق بھائی بہنوں کی عزت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔

اگر بالفرض یہ ’رکھوالا پن‘ سمجھ میں آتا ہے تو پھر اس بات کی سمجھ بھی آنی چاہیے کہ ان بھائیوں کی ہر گالی ماں بہن سے ہی کیوں شروع ہوتی ہے؟ اگر خادم رضوی کسی کو للکارتے ہیں تو ان کا انترہ 'پین دی سری' پہ جا کر ختم کیوں ہوتا ہے؟ بھائی کی سری سے یہ ساری غیرتیں کیوں منسوب نہیں ہو سکتیں؟

یہ جو آج کل ایک دوسرے کی 'ماں بھین' ایک کی جاتی ہے اس کا سرا پیچھے جا کر کہاں ملتا ہے؟ ایک نظر اپنی اعلیٰ ادبی ڈکشنریوں پر ڈالیے۔ چند سوالات اپنی لوک دانش کے نام کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں:

بھیڑ کی لات کیا، عورت کی بات کیا۔ یعنی عورت کی بات بھیڑ کو لات مارنے جتنی بھی اہم نہیں۔

اجنبی مرد بدکار عورت سے بہتر ہوتا ہے۔ بدکار مرد اجنبی عورت سے بہتر کیوں نہیں ہو سکتا؟

عورت اور گھوڑا ران تلے کا۔ ایک گھوڑے اور ایک عورت کو طاقت سے اپنے قبضے میں کیے رکھنا کیا بہادری ہے؟

زنانہ پن۔ اس سے بڑا صنفی تفریق والا تو کوئی لفظ ہی نہیں ہو سکتا۔

عورت کی عقل ایڑی میں ہوتی ہے۔ تو مرد کی عقل کیا ٹخنے میں پائی جاتی ہے؟

عورت کی اوقات کا جائزہ ہم نے اپنی اعلیٰ ادبی زبان کے تناظر میں لے لیا۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔

 سوچنا چاہیے کہ لطیفہ صرف بیوی یا پرائی عورت پر کیوں بنتا ہے؟ کبھی ماں کے حوالے سے کوئی لطیفہ آپ نے سنا ہے؟ کبھی بہن کے بارے میں کہیں کوئی لطیفہ پڑھا ہو؟ بیٹی کا لفظ کسی لطیفے میں آیا ہو؟

ایک عام مرد ساری عمر مختلف عورتوں کو دیکھتا ہے، کبھی کبھار ٹھنڈی آہ بھر سکتا ہے، مقدور بھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے، لیکن کوئی ایک عورت جب بیوی بن گئی تو سارے کے سارے لطیفے اس کی طرف منتقل کیوں ہو جاتے ہیں؟ شریف سے شریف مرد، جس کی ساری زندگی گھر اور دفتر میں گردن جھکائے یس سر کرتے گزری ہو گی، وہ بھی کم از کم ایسے لطیفوں کی صورت میں بھڑاس ضرور نکالے گا، مسئلہ کہاں ہے؟

شادی دو انسانوں کے اکٹھے رہنے کی وہ شکل ہے جسے معاشرے اور عقائد نے منظوری دے رکھی ہو۔ شادی د و طریقوں کی ہو گی، وہ ارینج میرج ہے، یا وہ لَوّ میرج ہے، تیسری کوئی شکل اگر اس رشتے کی ہو گی تو وہ انہیں دونوں سے مشتق ہو گی۔ کبھی حالات کا جھکاؤ ارینجمنٹ کی طرف زیادہ ہو گا کبھی ذاتی دلچسپی زیادہ شامل ہو گی۔ شادی جس طرح بھی ہو، شروع کے چند برس بعد ہر جوڑے کو ایک دوسرے سے شکایتیں ہوتی ہیں۔ دونوں کو مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ دوسرا غلط ہے، دونوں بحث کرکے یا لڑائی کرکے تھک جاتے ہیں لیکن اگلے دن پھر تازہ دم ہوتے ہیں۔

جب ساری چِک چِک کے بعد وہ مرحلہ آ تاہے جہاں مردوں کو لگتا ہے کہ یہ لطیفے بنیادی طور پر ان کے دل کی آواز ہیں، جھگڑوں کی فرسٹریشن موبائل پر آنے والے لطیفے پڑھ کر اور قہقہے لگا کر اڑا دی جاتی ہے۔ لیکن بیویوں نے آج تک شوہروں کے لطیفے کیوں نہیں بنائے؟ کیوں کہ آپ کا معاشرہ مردانہ برتری کا معاشرہ ہے۔

معاشرے میں پائی جانے والی اسی مردانہ برتری کے خلاف ایک بہت اہم آواز عکس ریسرچ سنٹر کی طرف سے آگے آئی ہے۔  #notfunny کے نام سے شروع ہونے والی اس مہم میں ان لطیفوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہےجو عورتوں پر بنائے جاتے ہیں، جو بیویوں پر بنائے جاتے ہیں اور جو کبھی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں، بھائیوں، شوہروں اور باپ کے رشتوں پر آف کورس نہیں بنائے جاتے۔ اس مہم میں اس بات پہ زور دیا گیا ہے کہ ایسے لطیفوں کو روزمرہ گفتگو میں شامل نہ کیا جائے جن میں صنفی تضاد نمایاں ہو اور جو دنیا کی آدھی آبادی پہ ہنسنے کی ترغیب دیتے ہوں۔

ایک لحاظ سے اس مہم کو بہت زیادہ خوش آئند سمجھا جانا چاہیے کیوں کہ یہ اس آگہی کو پیدا کرے گی جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سو لوگوں میں سے اگر ایک مرد بھی اس مہم کا اثر لیتا ہے اور نجی محفلوں میں بھی ایسے لطیفوں کی حوصلہ شکنی شروع ہو جاتی ہے تو اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے۔ یہ مہم لطیفوں اور محاوروں کی اس سٹیریو ٹائپ کو توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے جو بچپن سے ہی ہمیں عورت پر ہنسنا سکھاتے ہیں۔

ناٹ فنی کے ہیش ٹیگ سے پہلے بھی کافی سوشل میڈیا احتجاج ریکارڈ پرموجود ہیں اور ان میں بھی اسی چیز پہ زور دیا گیا ہے کہ جس چیز کو قبول عام کا درجہ حاصل ہو جائے، ضروری نہیں کہ وہ ٹھیک بھی ہو۔ اس مہم کو می ٹو (#metoo) کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ می ٹو کے بعد جنسی ہراسانی کے جس قدر کیس سامنے آئے ہیں ، جتنے چہروں سے نقاب اٹھا ہے ، اور دنیا بھر میں اس مہم کو جتنی پذیرائی ملی ہے اس کے بعد یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز میں بھی خواتین پر بنے لطیفوں کے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔

 اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو بھائی کی سری والا سوال اگلے کئی برس تک اتنا ہی انوکھا اور ایسے ہی تشنہ رہے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین