تین خواتین کی موت پر کوئی مدعی بننے کو تیار نہ تھا: کراچی پولیس

اتوار کو گلشن اقبال میں ایک فلیٹ سے ماں، بیٹی اور بہو کی لاشیں برآمد ہوئیں تاہم کوئی مدعی نہ ہونے پر پولیس نے اموات کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کر لیا۔

آٹھ فروری، 2024 کو پولیس اہلکار کراچی کی ایک شاہراہ پر تعینات ہیں (اے ایف پی)

اتوار کی شب کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک ون میں ایک رہائشی اپارٹمنٹ کے فلیٹ سے ماں، بیٹی اور بہو کی لاشیں برآمد ہوئیں اور اسی خاندان کا بیٹا بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر موت کی وجوہات واضح نہ ہونے اور کوئی مدعی نہ ہونے پر پولیس نے اموات کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے پیر کی شب تینوں خواتین کی اموات کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف تھانہ گلشن اقبال میں درج کر لیا۔

اس واقعے میں جان سے جانے والی خواتین کی شناخت 52 سالہ ثمینہ، 19 سالہ ثمرین اور 22 سالہ ماہا کے نام سے ہوئی ہے۔

ثمینہ، ثمرین اور ماہا کی لاشیں گلشن اقبال بلاک ون کے فلیٹ کے مختلف کمروں میں بستروں پر ملی تھیں۔ اس دوران ثمینہ کا بیٹا یاسین بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا، جسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ایس ایس پی ایسٹ زبیر شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’معاملے کی پیچیدگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ تین خواتین کے مردہ ملنے کے باوجود (گھر کے سربراہ سمیت) کوئی مدعی بننے کو تیار نہیں تھا، جس کے باعث پولیس نے سرکاری مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔‘

واقعے کی ترتیب کے حوالے سے ایس ایس پی زبیر شیخ نے مزید وضاحت کی کہ ’گھر کے سربراہ اقبال نے تین روز بعد اپنی بہن زرینہ کو اموات کی اطلاع دی۔ زرینہ نے اس بارے میں اپنے بھائی اسلم کو آگاہ کیا، جس کے بعد اسلم کی فلیٹ پر موجودگی پر پولیس کو اتوار کے روز کال کی گئی۔

پولیس کو لاشیں ملنے پر پتہ چلا کہ اقبال کی بہو ماہا کی موت تقریباً 72 گھنٹے قبل ہو چکی تھی جبکہ بیٹی ثمرین کی موت سب سے آخر میں ہوئی۔ بے ہوشی کی حالت میں ملنے والے نوجوان یاسین کی حالت خطرے سے باہر ہے مگر وہ تاحال اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے قابل نہیں ہے۔‘

ابتدائی تحقیقات میں گھر کے سربراہ اقبال اور بیٹے یاسین کا کردار مشکوک قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس نے اقبال کو حراست میں لے لیا ہے اور اقبال کے بھائی اسلم کا بیان بھی قلم بند کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’تین لاشیں ملنے کا مقدمہ قتل کی دفعات کے تحت سرکار کی مدعیت میں تھانہ گلشن اقبال میں نامعلوم ملزم کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ گھر کے سربراہ اقبال کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ اسلم کا بیان بھی قلم بند کر لیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کے مطابق: ’اسلم نے اقبال کے بیٹے کی شادی اور نوکری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ پولیس کیس کو تاحال پرسرار قرار دیتے ہوئے مزید تحقیق کر رہی ہے۔‘

پوسٹ مارٹم اور فارنزک رپورٹس

پولیس حکام کے مطابق سات دسمبر کو لاشوں کا پوسٹ مارٹم جناح ہسپتال میں مکمل کر لیا گیا ہے۔ لاشوں پر تشدد کے کوئی ظاہری نشانات نہیں ملے ہیں۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اموات کسی زہریلی شے کے استعمال سے واقع ہوئی ہوں گی لہٰذا موت کی حتمی وجہ جاننے کے لیے خواتین کے خون سمیت مختلف اعضا کے نمونے فارنزک اور کیمیکل ایگزامینیشن کے لیے لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔

پیر کے روز اقبال کے بھائی اسلم نے چھیپا سردخانے سے لاشیں وصول کیں، جن کی نمازِ جنازہ لائنز ایریا کی مسجد میں ادا کرنے کے بعد میوہ شاہ قبرستان میں تدفین کر دی گئی۔ پولیس اب رہائشی عمارت کے مکینوں اور چوکیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کر رہی ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کے لیے پولیس اور فارنزک ٹیم نے دوبارہ فلیٹ کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان