ننکانہ صاحب تنازع ایک مکھی کی وجہ سے شروع ہوا: ایس ایچ او

ننکانہ صاحب سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او تصور منیر کے مطابق احسان کے چچا کا ننکانہ صاحب میں ہوٹل ہے جہاں دو گاہک چائے پینے آئے، ان میں سے ایک گاہک کے کپ میں مکھی تھی جس پر انہوں نے ہوٹل انتظامیہ پر غصہ کیا کہ انہیں مکھی والے دودھ کی چائے پیش کی گئی۔

ایس ایچ او کا یہ بھی کہنا تھا کہ رات سکھوں اور مسلمانوں کے بیچ صلح کروا دی گئی تھی جس کے بعد معاملہ ختم ہوا یہی وجہ ہے کی نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ پرچہ کٹا۔(اے ایف پی)

ننکانہ صاحب سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او تصور منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ننکانہ صاحب میں کل ہونے والا جھگڑا ایک مکھی کی وجہ سے شروع ہوا۔

ایس ایچ او تصور منیر کے مطابق احسان کے چچا کا ننکانہ صاحب میں ہوٹل ہے جہاں دو گاہک چائے پینے آئے، ان میں سے ایک گاہک کے کپ میں مکھی تھی جس پر انہوں نے ہوٹل انتظامیہ پر غصہ کیا کہ انہیں مکھی والے دودھ کی چائے پیش کی گئی۔

یہاں سے بات بڑھی اور ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ 

پھر پولیس موقع پر پہنچی اور دونوں گروپوں یعنی ہوٹل مالک اور گاہکوں کو پولیس سٹیشن لے گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد احسان کے بھائی عمران نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور مذہبی انتشار پھیلانے کی کوشش کی۔

تصور منیر کا کہنا تھا کہ اس سارے واقعے کے دوران احسان ننکانہ صاحب میں موجود نہیں تھا بلکہ وہ لاہور آیا ہوا تھا۔

ایس ایچ او کا یہ بھی کہنا تھا کہ رات سکھوں اور مسلمانوں کے بیچ صلح کروا دی گئی تھی جس کے بعد معاملہ ختم ہوا یہی وجہ ہے کی نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ پرچہ کٹا۔

دوسری جانب پنجابی سکھ سنگت کے چئیرمین گوپال سنگھ چاولہ کا کہنا ہے کہ ’مظاہرین گردوارے کے سامنے سے جا چکے ہیں۔ جمعے کے روز گردوارے پر حملے سے پہلے قریبی مسجد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور گردوارے پر پتھراؤ بھی کیا گیا جس کے حوالے سے مقامی علما نےآج فتوی دیا ہے کہ یہ سارا عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘ 

جب کہ کچھ علما لاہور سے بھی ننکانہ صاحب سکھوں سے اظہار یک جہتی کے لہے پہنچ رہے ہیں۔

احسان کون ہے؟

اگست 2019 میں ننکانہ صاحب کے ایک مسلمان خاندان پر سکھ برادری کی ایک 19 سالہ لڑکی جگجیت کور کومبینہ طور پر اغوا کرنے اور جبری مذہب تبدیل کروا کر احسان نامی لڑکے سے ان کی شادی کر دینے کا الزام تھا۔ اس کیس میں احسان کے خاندان کے چھ افراد پر ننکانہ پولیس سٹیشن میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اس وقت دونوں خاندانوں کی گورنر ہاوس میں صلح بھی کروا دی تھی جب کہ عدالت عالیہ نے لڑکی کو دارالامان بھیج دیا تھا جہاں لڑکی نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی بضد ہے کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور میں اپنے خاوند احسان کے ساتھ ہی رہوں گی۔

جمعے کے روز احسان کے خاندان نے مبینہ طور پریہ الزام عائد کیا کہ مقامی پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں موجود خواتین اور بچوں پر تشدد کیا۔ احسان کے بھائی عمران نے مظاہرے کے دوران بتایا کہ پولیس احسان سمیت ان کے دیگر رشتہ داروں کو ساتھ لے گئی ہے۔ یاد رہے کہ احسان اور جگجیت کور کے کیس کی سماعت 9 جنوری کو ہونا تھی۔ احسان کے اہل خانہ نے یہ الزام بھی لگایاکہ ننکانہ صاحب پولیس ان کے خاندان پر دباٶ ڈال رہی ہے کہ لڑکی کو واپس کر دیا جائے اور ان کے خاندان کو پولیس ہراساں نہ کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان