’شامی پناہ گزین پر فلم بنانا فرض سمجھتی ہوں‘

نیڈین لبعکی کی فلم ’کپرنعم‘ آسکرز 2019 میں بہترین غیرملکی فلم کی کٹیگری میں نامزد ہوئی تھی۔

فوٹو: نیڈین لبعکی/ فیس بک

دل دہلا دینے والی لیبنانی فلم ’کپرنعم‘ اس سال تو اکیڈمی ایوارڈ نہ جیت سکی، لیکن ہدایت کار نیڈین لبعکی، جوکہ آسکرز میں نامزد ہونے والی پہلی عربی خاتون ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ اس موضوع پر فلم بنانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔  

نیڈین لبعکی کی فلم ’کپرنعم‘ آسکرز 2019 میں بہترین غیرملکی فلم کی کٹیگری میں نامزد ہوئی تھی۔ یہ فلم بیروت، لبنان میں بسنے والے ایک 12 سالا شامی پناہ گزین بچے کی کہانی ہے جو اپنی پیدائش کے خلاف اپنے والدین پر مقدمہ کرتا ہے۔

غربت میں گھرے ہوئے اور والدین کی بدسلوکی اور نظراندازی کے شکار، فلم کے مرکزی کردار زین (زیں ال رفیا) عدالت میں موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کے ماں باپ مزید بچوں کو جنم نہ دیں۔

کپرنعم‘ پچھلے سال کانز فلم فیسٹیول میں جیوری پرائز حاصل کر چکی ہے۔’

جنوری میں یواین نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نیڈین لبعکی نے کہا تھا کے انھوں نے شامی پناہ گزینوں کو درپیش مسائل اور ان کی مشکلات کے بارے میں فلم ننانا اپنا فرض سمجھا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ حیران ہوتی ہیں جب اُن سے کوئی سوال کرتا ہے کہ اُنھوں نی یہ فلم کیوں بنائی۔ ’میں سمجھتی ہوں کے اگر میں اس کے بارے ’میں کچھ کر سکتی ہوں، اپنی آواز استعمال کر سکتی ہوں تو ایسا نا کرنا ایک جرم ہوگا‘۔

 اس لیے نیڈین لبعکی نے فیصلہ کیا کے وہ اپنے فلم سازی کے ہنرکے ذریعے پناہ گزینوں کی مشکلات اور جدوجہد نُمایاں کریں گی۔

اُن کے مطابق لبنان جیسا چھوٹا ملک خود ایک عرصے سے معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور شامی پناہ گزینوں کے بحران سے یہ مسئلہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

’روز آپ ایسے بچے سڑکوں پہ کام کرتے دیکھتے ہیں جو صرف اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چوئنگ گم بیچ رہے ہیں، بھاری وزن اُٹھا رہے ہیں یا پھر مشکل کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں آپ خود کو اس مسئلے پر بات کرنے سے روک نہیں سکتے‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ انہوں نے یہ  فلم ایک بچے کے نقطہ نظر سے اس لیے بنائی کیوں کہ ایک بچہ، بالغوں کی نِسبت چیزوں کو بہت صاف دیکھتا ہے کیونکہ وہ معاشرے کے کوڈز، پالیٹکس یا منافقت سے بدلتا نہی۔

نیڈین لبعکی کا کہنا تھا کہ وہ اُس شامی پناہ گزین بچے کی کہانی سے بہت متاثر ہوئی تھی جو ترکی میں سمندر کنارے مردہ ملا تھا۔ انکو یاد ہے کہ انہوں نے اس کی تصویر دیکھی تو سوچا کہ اگر یہ بچہ بات کرسکتا تو کیا کہتا، اُن لوگوں کو کیا کہتا جنہوں نے اسے اس صورتِ حال میں ڈالا۔

آسکرز نامزد ہدایت کارہ نے مزید بتایا کہ فلم میں کام کرنے والے زیادہ تر اداکار غیر پیشہ ورانہ اداکار ہیں اور فلم میں دکھائی دینے والی صورتِ حال میں مبتلا ہیں۔

مرکزی اداکار زین ال رفیا خود ایک شامی پناہ گزین ہیں جو بہت مشکل حالات میں پچھلے آٹھ سال سے لبنان میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ زین کبھی سکول نہیں گئے اور فلم سے ان کی زندگی صرف اسی طرح مختلف ہے کہ ان کے والدین ان سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ زین کبھی سکول نہیں گئے اور سڑکوں کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے اور جو باتیں وہ فلم میں کر رہے ہیں وہ ان کی اصلی صورتحال سے ملتی جلتی ہیں۔

نیڈین نے بتایا کے فلم کے بعد قسمتی سے اب زیں کی صورتحال بہت مختلف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی مدد سے اب وہ ناروے میں بس گئے ہیں اور اب ان کی زندگی مختلف اور قسمت بدل گئ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی