جنرل سلیمانی کا قتل کسے کتنا متاثر کر سکتا ہے؟

ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنی سرگرمیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اپنی کمزور معیشت اور بےچین عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایران کو اپنے معاشی وسائل عوام کی ترقی کے لیے استعمال کرنے چاہییں نہ کہ انہیں شام، یمن اور عراق میں فوجی مہم جوئی میں ضائع کیا جائے۔

یمن میں ایک شخص نے  جنرل قاسم سلیمانی  کا پوسٹر اٹھا رکھا ہے۔ (اے ایف پی)

ایران کے جنرل قاسم سلیمانی پر بغداد میں امریکی قاتلانہ حملہ کچھ زیادہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ مشرق وسطی میں ایرانی سرگرمیوں کو علاقہ کے ممالک اور امریکہ کافی عرصے سے تشویش سے دیکھ رہے تھے۔

مشرقی وسطی میں تقریبا ہر تنازعہ میں آپ کو قاسم سلیمانی کا ہاتھ نظر آتا تھا۔ سلیمانی ایران میں قدس فورس کی قیادت کر رہے تھے جو کہ پاسداران انقلاب اسلامی کا حصہ ہے۔ امریکہ اسے پہلے ہی سے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ مشرق وسطی میں ایرانی جارحانہ سرگرمیوں کو جنرل قاسم سلیمانی کی متحرک اور پرجوش قیادت حاصل تھی۔

انہوں نے لبنان میں حزب اللہ سے لے کر عراقی ملیشیا، یمن میں حوثی اور شامی افواج کو نہ صرف تربیت مہیا کی بلکہ ہتھیاروں کی ترسیل بھی جاری رکھی۔ اسی طرح سلیمانی نے عراق کو دولت اسلامیہ یا داعش سے مقابلہ کرنے کی ہمت دلائی اور اس انتہا پسند گروپ کو عراق میں شکست دینے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔

امریکہ ماضی میں کئی مرتبہ قاسم سلیمانی کو ختم کرنے کی کوششیں کر چکا تھا اور ان کوششوں میں تیزی بغداد میں امریکی سفارت خانے کے حالیہ محاصرے کے بعد آئی جب امریکی سفارت خانے کو ایرانی ہمدرد ملیشیا نے ایک پورا دن محاصرے  میں رکھا اور سفارت خانے کو نقصان بھی پہنچایا۔ امریکہ کو یقین تھا کہ اس محاصرے کے پیچھے بھی قاسم کا ہاتھ تھا۔

قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں ایک ہیجان انگیز اور خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ چونکہ اس تنازعے میں بہت سے ممالک شامل ہیں تو ایک طرح سے یہ بین الاقوامی امن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکہ قانونی طور پر اسے ایک ’سر پر منڈلاتے ہوئے خطرے‘ سے نمٹنے کے عمل سے تشبیہہ دے رہا ہے مگر جرنیلوں کو ختم کرنے سے ایسے خطرات ٹل نہیں جاتے۔ امریکہ کے لیے یہ اقدام شاید اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن ایران کے لیے اس کی عزت اور وقار کا مسئلہ ہے۔ 

ویسے بھی ایران گھمبیر اندرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور اس کے لیے کسی نہ کسی قسم کا جواب دینا ضروری ہے ورنہ اندرونی سیاسی خلفشار مزید بڑھنےکا خطرہ ہے۔ ایران اور امریکہ کے پاس مندرجہ ذیل فوری اور طویل المعیاد راستے نظر آتے ہیں مگر ان راستوں کو چننے سے پہلے دونوں ملکوں کو اپنے قابل قبول نقصانات کے بارے میں سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا۔

صدر ٹرمپ کو اس صورت حال کو مزید خراب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر ایران سے کسی قسم کا تصادم طویل اور غیرنتیجہ خیز ہوتا ہے تو یہ ان کے اس سال صدارتی انتخابات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

ایران کے نقطہ نظر سے پہلا منطقی ردعمل تو کسی امریکی جنگی تنصیب یا کسی اہم امریکی فوجی اہلکار پر حملے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ تنصیبات میں سے مشرق وسطیٰ میں سمندروں میں امریکی بحری بیڑہ اور عراق میں فوجی اڈے ہو سکتے ہیں۔ اس میں ایران کو شدید احتیاط کی ضرورت ہوگی کہ امریکی نقصان اتنا زیادہ نہ ہو کہ امریکی ردعمل پہلے سے بھی زیادہ سخت ثابت ہو۔

ایران کے طالبان قیادت سے بھی کسی نہ کسی طرح کے روابط رہے ہیں۔ 2007 میں قاسم کی زیر قیادت ہی طالبان کو مختلف وجوہات کی بنا پر بڑی تعداد میں اسلحہ مہیا کیا گیا تھا۔ ان تعلقات میں مزید بہتری لا کر افغانستان میں امریکی افواج کے لیے مزید مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں جس میں امریکی افواج پر حملے اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایران کی مدد طالبان کی امریکہ کے ساتھ مذاکراتی طاقت میں بھی اضافے کا باعث بنے گی اور افغانستان میں امریکی مشکلات بشمول قبضے کی لاگت میں شدید اضافہ کرے گی۔

افغانستان میں مشکلات میں اضافہ صدر ٹرمپ کے لیے امریکہ میں سیاسی طور پر بھی نقصان دہ ہوگا۔ افغانستان میں مزید بدامنی صدر ٹرمپ کے لیے افغانستان سے ممکنہ انخلا بھی مشکل کر دے گی۔ یہ حکمت عملی ایران کے لیے سب سے زیادہ سود مند ہوگی کیونکہ اس سے وہ امریکہ سے براہ راست تصادم میں بھی نہیں ہو گا اور امریکہ کے نقصان میں بھی اضافہ کر رہا ہو گا۔

ایران خلیج میں تیل کی رسد میں بھی شدید رکاوٹیں ڈال سکتا ہے جو عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے پانچ ممالک تقریبا دنیا بھر کی 30 فیصد تیل کی پیداوار مہیا کرتے ہیں۔ اس پیداوار کی رسد میں رکاوٹ ایک بہت بڑے عالمی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عالمی قوتوں کو ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں مہینے لگ سکتے ہیں جو عالمی معیشت کسی طرح برداشت نہیں کرسکتی۔

سائبر جنگ کے ماہرین ایک اور طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایران اور امریکہ کے درمیان جاری پرانی سائبر دشمنی ایک طرح کی مکمل سائبر جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکی سائبر ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ میں ایران ان کی توانائی کی تنصیبات، ہسپتال، بینکوں اور مواصلات کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2010 سے ایران نے ان صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور ان امریکی بنیادی ڈھانچوں پر وقتاً فوقتاً کامیاب چھوٹے حملے بھی کیے ہیں۔ اس طرح کا ایرانی سائبر حملہ ایک براہ راست تصادم سے بچنے میں مدد دے گا اور ایرانی عوام کو بھی کچھ حد تک مطمئن کر سکے گا۔

پاکستان کو اس مسئلے پر غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے گو کہ ایران، انقلاب کے بعد کسی طرح ہمارا قابل اعتماد دوست نہیں رہا ہے۔ کلبھوشن ایران سے ہی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے آیا تھا اور یقینا اس کی کارروائیوں سے ایرانی خفیہ ایجنسیاں آگاہ تھیں مگر پھر بھی اسے پاکستان کے خلاف کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ اسی طرح چاہ بہار بندرگاہ میں بھارت کو کھلی رسائی دینا پاکستانی مفادات کے خلاف تھا لیکن ایران نے ان خدشات کو قابل غور نہیں سمجھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یقینا ایران کو بھی پاکستان سے شکایات ہوں گی مگر یہ وقت ان مسائل پر ضائع کرنے کا نہیں ہے۔ ایران میں کسی قسم کی بھی امریکی جارحانہ کارروائی پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کرے گی۔ اس لیے پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ درپردہ امریکہ پر واضح کرے کہ اسے ایران میں براہ راست کسی جارحانہ کاروائی سے گریز کرنا چاہیے۔ چونکہ امریکی وزیر خارجہ نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کر کے انہیں براہ راست اپنے قدم کی وجہ بتائی ہے تو پاکستان کو بھی اسی چینل کو استعمال کرتے ہوئے کسی بڑی کارروائی سے اجتناب کا واضع پیغام دینا چاہیے۔

امریکی حملے سے کچھ دیر قبل یو اے ای کے ولی عہد کا پاکستان کا مختصر دورہ اور امریکی سینیٹر لنزی گریم کی ہوائی اڈے پر وزیراعظم سے ملاقات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو شاید اس حملے کے بارے میں پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔ اسی لیے پاکستان کا سرکاری اعلان انتہائی مختصر اور نپا تلا ہوا تھا۔ اس واقعے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت کو اسے سنبھالنے کی ذمہ داری سفارتی اور دفاعی ماہرین کو سونپنی چاہیے اور وزیروں کی سطح پر بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

سعودی عرب اور یو اے ای کو بھی چاہیے کہ اس تنازع کو زیادہ نہ بڑھائیں کیونکہ کسی قسم کی جنگی کارروائی اور اس کے اثرات پورے خطے کو خطرات کا شکار کر سکتے ہیں۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ تنازع کسی بڑے تنازعے کی شکل نہیں اختیار کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے اس حملے کے فورا بعد ایک طرح کا صلح آمیز پیغام بھی دیا ہے جس میں ایران سے بات چیت پر بھی رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ روس اور چین نے بھی اس تنازعے کو زیادہ بڑھانے سے روکنے کی بات کی ہے اگر یہ دونوں ملک بھی اس تنازعے میں شامل ہوگئے تو شاید امریکہ کے لیے اسے ایران تک محدود رکھنا ممکن نہ ہو اور عالمی امن ایک شدید خطرے سے دوچار ہو جائے۔ ان حالات میں غالب امکان یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے باہمی حملے جاری رہیں گے مگر کوئی بہت بڑا جنگی سانحہ نہیں ہوگا۔

جیسا کہ ایک پچھلے کالم میں بھی کہا گیا ہے کہ ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنی سرگرمیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اپنی کمزور معیشت اور بےچین عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایران کو اپنے معاشی وسائل اپنے عوام کی ترقی کے لیے استعمال کرنے چاہییں نہ کہ انہیں شام، یمن، لبنان اور عراق میں فوجی مہم جوئی میں ضائع کیا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ