پاکستانیوں کی معلومات دیگر ممالک کو خفیہ طریقےسے دی جاسکیں گی

عام طور پر ملکوں کے درمیان قانونی معاونت کے لیے باہمی معاہدے ہوتے ہیں مگر اس قانون سازی کے بعد پاکستان کو اپنے کسی شہری کی معلومات کسی دوسرے ملک کو دینے کے لیے کسی باضابطہ معاہدے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

نئی قانون سازی کے تحت حکومت پاکستان دیگر ممالک سے بغیر معاہدے کے دیگر ممالک کو قانونی معاونت فراہم کر سکے گی۔(تصویر: اے ایف پی)

قومی اسمبلی میں گذشتہ روز میوچل لیگل اسسٹنس (کریمنل میٹرز) ایکٹ 2020 کی منظوری دی گئی جس پر اپوزیشن نے اعتراضات بھی اٹھائے، مگر کثرت رائے کے باعث بل قومی اسمبلی سے پاس ہو گیا۔

اس قانون کا مقصد فوجداری معاملات میں دیگر ممالک سے قانونی معاونت حاصل کرنا اور دیگر ممالک کو وہی قانونی معاونت دینا ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد پاکستان دوسرے ممالک کو قانونی معاونت فراہم کر سکے گا۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں قانون پر بحث کے دوران اراکین اسمبلی کو بتایا کہ یہ بل ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن کی وجہ سے فوری طور پر منظور کروانا بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر اس بل میں کچھ نکات بھی موجود ہیں جن کے مطابق عام پاکستانی شہری کی تفصیلات کسی دوسرے ملک کو باآسانی دی جا سکیں گی۔

کسی اور ملک کو پاکستان سے معلومات لینے کے لیے باضابطہ معاہدے کی ضرورت نہیں

نئی قانون سازی کے تحت حکومت پاکستان دیگر ممالک سے بغیر معاہدے کے دیگر ممالک کو قانونی معاونت فراہم کر سکے گی۔ عام طور پر ملکوں کے درمیان قانونی معاونت کے لیے باہمی معاہدے ہوتے ہیں مگر اس قانون سازی کے بعد پاکستان کو اپنے کسی شہری کی معلومات کسی دوسرے ملک کو دینے کے لیے کسی باضابطہ معاہدے کی ضرورت نہیں ہو گی، بلکہ حکومت پاکستان اگر چاہے تو سرکاری گزٹ میں محض ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اس ملک کو پاکستانی شہری کی معلومات فراہم کی جا سکیں گی۔

لیکن دوسری طرف اگر یہی سہولت پاکستان کو کسی ملک سے درکار ہو گی تو وہ پاکستان سے معاہدے کی درخواست کر سکتا ہے۔

بل کی شق 3(3) کے مطابق اگر وفاقی حکومت کے خیال میں کسی فوجداری معاملے میں کسی ملک کو قانونی معاونت دینی ہے اور اس کے ملک کے ساتھ پاکستان کا کوئی معاہدہ یا سہولت نہیں تو سرکاری گزٹ میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اس ملک کو معاونت فراہم کی جا سکے گی۔

سیکشن 3(3) کے حوالے سے ماہر پبلک پالیسی امور اور ایف اے ٹی ایف معاملات کے ماہر حسان خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معاہدے کے بغیر معلومات کے تبادلے کی شق کو اس لیے شامل کیا گیا ہے کیوں کہ ایسے کیس بھی سامنے آتے ہیں جن میں ایک ملک کے ساتھ آپ کو شاید ایک ہی بار معلومات کا تبادلہ کرنا ہو تو ایک کیس کے پیچھے آپ ہر ملک سے معاہدہ نہیں کر سکتے۔

حسان خاور کے مطابق معاہدے کے بغیر کسی ملک سے معلومات کا تبادلہ حکومت پاکستان (وفاقی کابینہ) کی اجازت کے بعد ہو گا۔

سیکریٹری داخلہ کتنے طاقتور ہوں گے؟

اس بل میں مرکزی اتھارٹی سیکریٹری داخلہ یا ان کی طرف سے متعین جوائنٹ سیکریٹری یا اس سے بڑے درجے کے افسر کو بنایا گیا ہے۔ جوائنٹ سیکریٹری یا اس سے بڑے عہدے کا افسر کا ذکر بھی پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے بعد شامل کیا گیا تھا۔ اصلی حالت میں سیکریٹری داخلہ کے متعین کردہ کسی بھی رینک کے افسر کے پاس یہ تمام اختیارات ہونے تھے۔

قادر پٹیل کے اعتراض کو پہلے تو وزیر مملکت علی محمد خان نے رد کر دیا مگر قادر پٹیل کے اصرار کے بعد اس ترمیم کو بل کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔

سیکریٹری داخلہ کے پاس مندرجہ ذیل اختیارات ہوں گے:

  1. حکومت پاکستان کی جانب سے کسی دوسرے ملک سے قانونی معاونت کے لیے درخواست بھیجنے کا اختیار
  2. دوسرے ملک سے آئی قانونی معاونت کی درخواست کی وصولی اور اس پر عمل در آمد کا تعین کرنا
  3. دوسرے ممالک کو شواہد کی فراہمی کی ذمہ داری
  4. قانونی معاونت کی درخواست کے باعث دستاویزات کی سرٹیفیکیشن

اس کے علاوہ سیکریٹری داخلہ دوسرے ملک سے قانونی معاونت سے انکار ان وجوہات کی بنا پر بھی کر سکے گا:

  1. اگر معاونت فراہم کرنے سے پاکستان کی سالمیت، سکیورٹی، مفاد عامہ، قومی مفاد کو نقصان پہنچتا ہو تو
  2. ایسے کیس جو کسی شخص پر اس کی ذات، جنس، جنسی رجحان، مذہب، قومیت، زبان، رنگ، ذہنی حالت یا سیاسی نقطہ نظر کی وجہ سے کیے گئے ہوں
  3. اگر معاونت سے پاکستان میں موجود چلنے والے کیسوں پر فرق پڑنے کا خطرہ ہو

حکومت پاکستان، سیکریٹری داخلہ یا اس مجوزہ قانون کے تحت کام کرنے والے کسی افسر کے خلاف فرائض کی انجام دہی کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔

حسان خاور کے مطابق ہر قانون میں کوشش کی جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ طاقت دی جائے اور دیگر ممالک میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں۔

حسان خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اقوام متحدہ کے میوچل لیگل اسسٹنس پر ماڈل قانون کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون میں بھی ایک شخص (وزیر قانون یا کوئی اور) اسے مرکزی اتھارٹی کہا گیا ہے اور یہ اس بل کے لیے ضروری ہے۔ 

دوسرے ملک سے درخواست کے بغیر بھی اسے معلومات بھیجی جا سکیں گی

عام طور پر کسی دوسرے ملک کی طرف سے قانونی معاونت کی درخواست کے بعد اس ملک کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں مگر اس قانون سازی کے بعد دوسرے ملک سے درخواست موصول ہوئے بغیر بھی انہیں فوج داری معاملے میں خفیہ طریقے سے معلومات فراہم کی جا سکیں گی۔

بل کی شق 5(1) کے مطابق اگر سیکریٹری داخلہ یا ان کے متعین افسر کو ضروری لگتا ہے تو وہ فوج داری معاملات کے حوالے سے کوئی بھی معلومات خفیہ طریقے سے دوسرے ملک کی مجاز اتھارٹی کو ان کی طرف سے درخواست موصول ہوئے بغیر بھی معلومات بھیجی جا سکیں گی۔

شق 5(1) پر حسان خاور کا کہنا تھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سیکریٹری داخلہ کو اختیارات دیے گئے ہیں مگر اس قانون کا اطلاق شق 3 میں درج کر دیا گیا ہے جس کہ مطابق ان ممالک سے معلومات کا تبادلہ ہو گا جن کے ساتھ یا تو حکومت کا معاہدہ ہو یا کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہو۔

بغیر درخواست کے کسی ملک کو معلومات دینے پر حسان خاور نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ اس لیے کیا گیا ہے کیوں کہ اکثر کیسوں میں ایسا ہوتا ہے کہ تحقیقات کے دوران ایک ملک کے پاس معلومات آتی ہیں جو شاید دوسرے ملک کے پاس نہ ہوں۔ اس قانون کی مدد سے دوسرے ملک کو معلومات فراہم کی جا سکیں گی۔

جب حسان خاور سے سوال کیا گیا کہ آیا اس بل کو لانے کی وجہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بالکل اس قانون سازی کی وجہ ایف اے ٹی ایف اور دنیا بھر میں آپ کو ایسے قوانین مل جائیں گے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر نے گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے بارے میں یہ کہا تھا:

قانونی معاونت کے تحت کیا کچھ ہو سکے گا؟

اس مجوزہ قانون کے تحت پاکستان کسی دوسرے ملک یا دوسرے ملک پاکستان سے مندرجہ ذیل قانونی معاونت حاصل کر سکے گا:

  1. گواہوں، مشکوک افراد، قصور وار یا مجرموں کی جگہ یا ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا جا سکے گا۔
  2. دستاویزات اور شواہد کی پیشکش
  3. کسی کیس میں تحقیقات کے لیے شواہد کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ کا حصول
  4. تفتیش کے دائرہ کار میں آنے والی جائیداد کی قرقی
  5. تفتیش یا تحقیقات کے دوران کیس میں معاونت حاصل کرنے والے شخص کو اس کی مرضی کے ساتھ پاکستان بلایا جا سکے گا یا پاکستان سے باہر اسے دوسرے ملک بھیجا جا سکے گا
  6. کسی شخص کے پاس موجود الیکٹرانک معلومات جو کسی کمپیوٹر میں موجود ہوں وہ بھی فراہم کی جا سکیں گی
  7. کسی شخص کی معلومات جو کسی سروس پرووائڈر کے پاس ہوں انہیں بھی دوسرے ملک کے ساتھ شیئر کیا جا سکے گا
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان