ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی دو ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے

امریکی صدر کی قانونی ٹیم نے مواخذے کی کارروائی کے حوالے سے اپنا دفاعی لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے کارروائی کو غیر آئینی اور ’خطرناک‘ قرار دے دیا۔

صدرڈونلڈ ٹرمپ کی قانونی ٹیم میں وائٹ ہاؤس کے مشیر پیٹ کپولون کلیدی کردار ادا کریں گے(اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی دو ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے۔

ان سے قبل سابق صدر بل کلنٹن کے مواخذے کی کارروائی پانچ ہفتے تک چلی تھی جبکہ 1868 میں صدر اینڈریو جانسن کے خلاف مواخذے کی کارروائی تین ماہ تک جاری رہی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر وائٹ ہاؤس اور ری پبلکنز کامیاب ہو جاتے ہیں تو صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی دو ہفتوں میں ختم ہو جائے گی اور وہ چار فروری کو سٹیٹ آف دی یونین کی تقریر میں اپنی بریت کا جشن منا سکیں گے۔

لیکن ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ری پبلکنز ڈیموکریٹس کی جانب سے مزید دستاویزات اور گواہوں کو پیش کرنے کے مطالبے کو روک سکیں۔ تاحال صدر کے حمایتی اور سینیٹ میں ری پبلکنز کے رہنما مچ میک کونیل کو اس معاملے میں برتری حاصل ہے۔

مواخذے کی کارروائی کے طریقہ کار کا فیصلہ منگل کو ہو گا جس میں ایک سو سینیٹرز مواخذے کے طریقہ کار پر بحث اور ووٹنگ کریں گے۔ استغاثہ اور صفائی دونوں کو ابتدائی دلائل کے لیے وقت اور سینیٹرز کی جانب سے سوالات بھی طے کیے جائیں گے۔

ڈیموکریٹس مطالبہ کر رہے ہیں کہ سینیٹ وائٹ ہاؤس کے چار سابق اور موجودہ اہلکاروں کو، جن میں صدر ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی مشیر جان بولٹن اور ان کے قائم مقام چیف آف سٹاف مک ملوانے بھی شامل ہیں، بطور گواہ پیش ہونے کی اجازت دی جائے ۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ بولٹن اور مک ملوانے صدر ٹرمپ پر لگائے جانے والے الزامات سے ذاتی طور پر آگاہ ہیں۔ وائٹ ہاؤس اس سے قبل ایوان نمائندگان کو دستاویزات اور گواہوں کو پیش کرنے سے روک چکا ہے اور سینیٹ میں بھی ایسا ہی کیے جانے کا امکان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ دو ہفتوں سے زیادہ جاری نہیں رہے گا۔ صدر کو بری ہونا چاہیے ہمارے خیال میں ایسا ہی ہو گا اور بہت جلد ہو گا۔‘

سینیٹ میں مچ میک کونیل کی سربراہی میں ری پبلکنز کو 47 کے مقابلے میں 53 ارکان سے برتری حاصل ہے، جو انھیں مواخذے کے اصول معین کرنے اور گواہوں کو روکنے کا اختیار دیتا ہے۔

ڈیموکریٹس کی جانب سے ری پبلکنز پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گواہوں کو پیش کرنے کے مطالبے کی حمایت کریں۔

سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے رہنما چک شومر کا کہنا ہے کہ’ہم نے چار گواہوں اور تین دستاویزی ثبوتوں کو پیش کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز میں سے ہر ایک کے پاس اگلے دنوں میں یہ موقع ہو گا کہ وہ اس معاملے کی سچائی جان سکے یا صدر کو اسے چھپانے کا اختیار دیں۔‘

ڈیموکریٹس امید کر رہے ہیں کہ کئی ری پبلکن سینیٹرز ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

کچھ ری پبلکنز سینیٹرز نے ماضی میں صدر بل کلنٹن کے مواخذے کے دوران گواہوں کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ان پر اس بار بھی یہی موقف لینے کا دباؤ ہے۔ اگر چار ری پبلکن ارکان ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہیں تو مواخذے کی کارروائی کئی ہفتے طویل ہو سکتی ہے۔

لیکن مچ میک کونیل کے پاس صدر کے دفاع کا ایک طریقہ بھی موجود ہے۔ وہ صرف وائٹ ہاؤس کی مرضی کے گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں چاہے ان کے پاس صدر کی بریت یا ان پر لگے الزامات کے حوالے سے بہت کم معلومات ہی کیوں نہ ہوں۔

ری پبلکنز کہہ رہے ہیں کہ وہ سابق نائب صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کو بھی طلب کر سکتے ہیں۔

ری پبلکن سینیٹر رانڈ پال کا کہنا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس کسی گواہ کو طلب کرتے ہیں تو ’میرا اندازہ ہے کہ یہ ایک ہی گواہ ہو گا لیکن صدر کو بھی اپنے حق میں گواہوں کو بلانا ہو گا تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔‘

ادھر، ہفتے کو صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم نےمواخذے کی کارروائی کے حوالے سے اپنا دفاعی لائحہ عمل پیش کر دیا ہے، جس میں انھوں نے مواخذے کی کارروائی کو غیر آئینی اور ’خطرناک‘قرار دیا۔

صدر کی قانونی ٹیم میں وائٹ ہاؤس کے مشیر پیٹ کپولون کلیدی کردار ادا کریں گے۔ ان کے علاوہ صدر کے ذاتی وکیل جے سیکولو، سابق صدر بل کلنٹن کے مواخذے میں شامل کین سٹار اور متنازع وکیل ایلن ڈیر شووٹز بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

صدر ٹرمپ پر الزامات کے جواب میں لکھے گئے ابتدائی رد عمل میں پیٹ کپولون اور جے سیکولو نے مواخذے کے آرٹیکلز کو ’امریکی عوام کے اپنے صدر کو چننے کے آزادانہ حق پر خطرناک حملہ قرار دیا ہے۔‘

قانونی ٹیم نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ 2016 کے انتخابات کے نتائج کو بدلنے کی ایک غیر قانونی اور عجیب کوشش ہے اور اس کا مقصد 2020 کے انتخابات میں دخل دینا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ