آرمی ایکٹ کے معاملے پر مجھے شرمندگی ہوئی: شاہد خاقان عباسی

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں کہ بل نے ہر صورت پاس ہونا تھا مگر اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ درست نہ تھا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ زندگی رہی تو ریٹائرمنٹ کے بعد سچ پر مبنی کتاب لکھیں گے۔ (تصویر: بشارت راجہ)

’آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر مسلم لیگ ن کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے نہ صرف کارکنان پارٹی قیادت سے ناراض ہوئے بلکہ مجھے بھی شرمندگی ہوئی۔ اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں کہ بل نے ہر صورت پاس ہونا تھا مگر اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ درست نہ تھا۔ جمہوری ممالک میں قانون سازی کے لیے بل پارلیمان میں لایا جاتا ہے، اس پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے اور پھر اس کے منظور ہونے یا نہ ہونے پر ووٹنگ ہوتی ہے۔‘

یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ نیب کی تحویل میں موجود سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ہیں۔

احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر وقت ملا تو انہیں ٹٹولا کہ آیا ن لیگ میں سب اچھا چل رہا ہے؟ اور یہ کہ اگر ن لیگ نے یہی کرنا تھا تو پھر چوہدری نثار کیوں معتوب ٹھہرے؟

جس پر شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ ’چوہدری نثار کے ساتھ میرا ذاتی تعلق ہے، وہ پکے لیگی ہیں، کہیں نہیں جائیں گے۔‘

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کا فیصلہ کرتے وقت پارٹی قیادت نے شاہد خاقان عباسی کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے ناراض ہیں اور اُن کی ناراضگی ٹھیک ہے۔

جب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا اقتدار نصف النہار پر تھا تو مشرف نے شاہد خاقان عباسی پر ہر حربہ استعمال کیا کہ وہ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں مگر اس مرد کوہستانی نے پسِ زنداں ہونا قبول کرلیا مگر نواز شریف کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشرف کیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’عدالتیں انصاف دیتے وقت کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر فیصلہ کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’موجودہ حکومت میں جتنی پارلیمنٹ بے توقیر ہوئی، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پارلیمنٹ کی بے توقیری میں ہم سب برابر کے قصور وار ہیں۔ قائد ایوان کو باقاعدگی سے اسمبلی سیشن میں جانا چاہیے لیکن کچھ عرصے سے غلط روایت چل پڑی ہے، جسے اب ختم ہونا چاہیے۔

جیل میں ان کے معمول کے حوالے سے جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کتابیں پڑھتے ہیں مگر کتاب لکھ نہیں رہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’سچ لکھنے کے لیے بہترین وقت ریٹائرمنٹ کے بعد کا ہوتا ہے۔ ایسی کتاب لکھنے کا کیا فائدہ جس میں پورا سچ نہ لکھا جائے۔ زندگی رہی تو ریٹائرمنٹ کے بعد سچ پر مبنی کتاب ضرور لکھوں گا۔‘

گفتگو کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ جیل حکام نے چلنے کا کہا تو شاہد خاقان عباسی گویا ہوئے ’چلیں اپنے اپنے گھر‘ جس پر محفل میں قہقہے لگ گئے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست