شمیم بی بی جنہوں نے اپنے تین بچوں کی لاشیں خود برف سے نکالیں

گاؤں سیری بالا کی شمیم بی بی کے خاندان کے 15 افراد  برف تلے دب گئے۔ ان کے والد نے ان کو نکال لیا اور پھر وہ باقی لوگوں کو بچانے کے لیے آدھی رات تک والد کے ساتھ ملبہ ہٹاتی رہیں۔

بتیس سالہ شمیم بی بی کے ہاتھوں پر لگے زخم اور چہرے کی خراشیں رفتہ رفتہ ٹھیک ہو رہی ہیں لیکن ان کی روح کو لگے گھاؤ بھرنےمیں بہت وقت لگے گا۔

سرگن ویلی کے گاؤں سیری بالا کی رہائشی یہ خاتون صدمے کی حالت میں ہیں۔ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پاتیں، اب تو آنکھوں سے آنسو بھی نہیں نکلتے۔ گذشتہ ہفتے آنے والے برفانی طوفان نے ان کا گھر اور گود دونوں اجاڑ دیے۔

اس طوفان میں شمیم بی بی کا گھربرفانی تودے تلے دب  گیا۔ وہ خود تو بچ گئیں مگر ان کی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت خاندان کے کل 11 لوگ اس حادثے میں لقمہ اجل بن گئے۔

اپنے زخمی ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے شمیم بی بی اپنے بچوں کے بارے میں بتاتی ہیں: ’دو کی لاشیں یہاں سے نکالیں، تیسری کو ہیلی کاپٹر بے ہوشی کی حالت میں لے کر گیا اور لاش واپس لایا۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شمیم بی بی نے بتایا کہ برفانی تودہ جب آیا تو اتنا طاقتور تھا کہ اس نے انھیں گھر سے باہر کی طرف پھینک دیا، وہ برآمدے میں گریں اور گھر کی چھت کا ایک حصہ ان کے اوپر گر گیا۔

شمیم بی بی کو برفانی تودے تلے سے ان کے والد میر عالم نے نکالا۔

میرعالم نے بتایا: ’میں جب یہاں پہنچا تو چھت کے نیچے مجھے کسی بندے کی آواز آئی۔ میں نے ہاتھوں سے وہاں کھرچنا شروع کیا تو مجھے اس (شمیم بی بی) کا جوتا نظر آیا۔ میں نے جوتے کے اردگرد کھرچ کر (اورملبا اٹھا کر) اپنی بیٹی کو باہر نکالا۔‘

اس کے بعد شمیم بی بی زخمی حالت میں اپنے والد اور پڑوسیوں کے ساتھ برفانی تودے تلے دب جانے والے اپنے بچوں کو نکالنے کی کوشش کرتی رہیں۔

 میر عالم  نے کہا: ’دس منٹ کے بعد اس کو ہوش آیا تو اس نے بتایا کہ یہاں میرے ساتھ میرا ایک بچہ بھی تھا۔ ہم (دونوں) نے مل کر اس جگہ کو کھرچنا شروع کیا۔ اتنی دیر میں ہمارے محلے کے ہی دو اور لوگ بھی آ گئے۔ ہم نے (لکڑی کے) پھٹے اٹھا کر ایک بچہ زندہ نکال لیا۔ پھر ہم مکان کی اگلی طرف آئے اور کھودنا شروع کیا۔ وہاں سے ایک بچی کی آواز آئی کہ میں زندہ ہوں مجھے نکالنے کی کوشش کرو۔‘

شمیم بی بی ساڑھے تین بجے سے لے کر آدھی رات تک مسلسل برف صاف کرتی رہیں، لکڑیاں اور ملبہ ہٹا کر نیچے دب جانے والے اپنے بچوں اور خاندان کے دوسرے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہیں۔ مگر شدید سردی، اندھیرے، مسلسل برف باری اور دن بھر کی تھکن کی وجہ سے وہ رات 12 بجے کے بعد مزید کام کرنے کے قابل نہیں رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے بتایا: ’رات 12 بجے پہلا زخمی نکالا۔ اس وقت کل چار ہی آدمی جمع ہو سکے تھے جو باقی بچے تھے ان کو اگلے روز تین بجے نکالا اور تین لاشیں تین دن بعد نکالیں۔‘

ہلاک ہونے والوں میں شمیم بی بی کے تین بچوں کے علاوہ ان کی ساس، سسر اور تین دیورانیاں اور ان کے تین بچے بھی شامل ہیں۔

میر عالم کے بقول اگلے دن قریبی گاؤں سے لوگ بھی آ گئے۔ ان میں عورتیں بھی تھی مرد بھی تھے۔ سب نے مل کر ملبہ ہٹانا شروع کیا۔ ساتھ والے گھر میں بھی دس لوگ ملبے تلے دبے تھے۔

انھوں نے کہا: ’صبح نماز کے وقت ہم دوبارہ یہاں پہنچے۔ تقریباً چار گھنٹے کے بعد ہمیں چار لاشیں ملیں اور دو زخمی مل گئے۔ ہم شام تک وہیں (کھدائی میں) لگے تھے مگر تین لوگوں کی لاشیں نہ ملیں۔ اگلے دن آٹھ بجے پھر کھدائی شروع کی۔ ایک بچی کی لاش تھوڑی دیر بعد مل گئی۔ دو بچوں کی لاشیں اگلے دن شام چار بجے ملیں۔ مگر انہیں دفن کرنے کی کوئی صورت حال نہیں تھی۔ دو دن کے بعد خاندان کے جو بندے باہر تھے وہ پہنچ آئے۔ چوتھے دن مغرب کے وقت ہم نے لاشیں دفن کیں۔‘

سیری بالا کے علاوہ بکوالی گاؤں میں بھی خواتین امدادی سرگرمیوں میں مردوں کے ساتھ شامل رہیں۔ اس گاؤں کی مسجد کے امام مولوی عبدالرحمان نے انڈپیڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس گاؤں کے صرف پانچ افراد تودےتلے آنے سے بچ گئے تھے۔’ جن لوگوں کو ہم نے ملبے سے نکالا ان میں خواتین بھی شامل تھی۔ ارد گرد سے بھی خواتین جمع ہو گئیں۔ پھر ہم نے مل کر برف اور ملبہ ہٹایا۔‘

اس حادثے کے بعد سرگن ویلی کا یہ علاقہ سوگ کی کیفیت میں ہے۔ بچے بڑے سبھی صدمے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شدید سردی اور گہرے صدمے نے انہیں منجمد کر دیا ہے۔

تودے سے سیری بالا اور بکوالی نامی گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بعض گھروں میں تو پورے پورے خاندان ختم ہو گئے۔ کہیں والدین تو بچے نہیں اور کہیں بچے اپنے والدین کو تلاش کر رہے ہیں۔

سرگن کے علاقے سے سردیوں کے موسم میں زیادہ تر مرد روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں میں چلے جاتے ہیں اور عورتیں اور بچے  ہی گھر میں رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اس حادثے میں مرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔

شمیم بی بی کے خاوند طارق اور ان کے چار بھائی بھی کراچی میں تھے۔ حادثے کا علم ہوتے ہی وہ واپس آ گئے اور دو دن پیدل چلنے کے بعد اس گاؤں پہنچے جہاں کبھی ان کا گھر اور ہنستا بستا خاندان ہوا کرتا تھا مگر اب صرف 11قبریں اور زندہ بچ جانے والے چند افراد باقی ہیں۔

کئی لوگ اب ان ہولناک یادوں سے پیچھا چھڑا کر جانا چاہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ جائیں کہاں؟

شمیم بی بی کہتی ہیں کہ جو مر گئے ان کو دفن کر دیا۔ جو باقی ہیں وہ بھی محفوظ نہیں۔’ہم جو زندہ بچ گئے ہیں ہمیں کوئی متبادل جگہ دی جائے جہاں ہم زندگی کے بقیہ دن گزار سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان