حقیقت پسند ’نو فادرز ان کشمیر‘

فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ایشون کمار نے روایتی بالی وڈ سے ہٹ کر پہلی بار کشمیر کے حالات کی درست عکاسی کی ہے جس کے نتیجے میں انھیں بھارت میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن برطانیہ میں فلم کو زبردست پزیرائی ملی ہے۔

فلم ’نو فادرز ان کشمیر‘ کا ایک پوسٹر

کشمیر پر بنائی جانے والی فلم ’نو فادرز ان کشمیر‘ آج کل برطانیہ کے مختلف شہروں میں کافی مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ بیشتر معروف اخباروں نے اس پر کئی تبصرے  لکھے ہیں۔

برطانیہ میں رہائش پذیر ہزاروں کشمیری اس فلم کو دیکھ کر پہلی بار مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ بیشتر کی رائے ہے کہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو حقیقی طور پر منظر عام پر لایا گیا ہے۔

فلم کا موضوع کشمیر کے ان ہزاروں لاپتہ افراد کے گرد گھومتا ہے جن کے بچے تین دہائیوں سے اپنے والدین کی تلاش میں ہیں جو عسکری تحریک کے دوران بھارتی فوج کی حراست میں لاپتہ ہوگئے اور اب تک ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کئی دہائیوں سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ انھیں اپنے عزیزوں کے بارے میں بتایا جائے کہ کیا وہ زندہ ہیں یا مردہ اور اگر ان کو ہلاک کر دیا گیا ہے تو انھیں کہاں دفنایا گیا؟

ایک اندازے کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد تقریباً 10 ہزار ہے جن میں اکثر کو، بعض انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق، دوران حراست ہلاک کر کے نامعلوم قبروں میں دفنایا دیا گیا۔

فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ایشون کمار نے روایتی بالی وڈ سے ہٹ کر پہلی بار کشمیر کے حالات کی درست عکاسی کی ہے جس کے نتیجے میں انھیں بھارت میں فلم کی نمائش کے دوران شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی سینیماؤں میں چند روز کے بعد ہی اس فلم کی نمائش بند کر دی گئی تھی۔

میں نے لندن میں فلم کے پریمیئر کے دوران ایشون سے پوچھا کہ بھارتی حکومت اور کٹر ہندوؤں کے لیے یہ موضوع انتہائی سنگین ہے تو آپ کو یہ فلم ریلیز کرنے کی اجازت کیسے ملی؟

ایشون نے جذباتی لہجے میں کہا کہ اس فلم پر پہلے سینسر بورڈ کی جانب سے کافی اعتراضات اٹھائے گئے۔ ان کو سمجھا بجھا کر جب فلم کی ریلیز کا وقت آیا تو ڈسٹربیوٹرز اس کو لینے سے کتراے۔ پھر فلم انڈسٹری نے فلم کو ڈبوں میں بند رکھنے کی لاحاصل کوشش کی، بڑی پریشانی کے بعد جب فلم سینیما میں ریلیز ہوئی توعام بھارتیوں کو بہت پسند آئی۔

’انھیں کشمیر کی صحیح صورت حال کا پتہ چلا جو سرکار کو ناگوار گزرا جس کے فوراً بعد فلم کی نمائش بند ہوگی جبکہ بعض فلم فیسٹیولز میں اسے کافی پذیرائی ملی۔‘


ایشون نے 2015 میں اس فلم کے موضوع اور لوکیشن کے بارے میں جب میری رائے جاننے کی کوشش کی تھی تو میں بھی سمجھ بیٹھی کہ وہ بھی بالی ووڈ کی طرح نیشنلزم کے چکر میں حکومت کے نکتہ نگاہ کو اجاگر کریں گے حالانکہ انھوں نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ وہ کشمیر کے حالات کو سکرین پر لا کر عوام کو وہ سب بتانا چاہتے ہیں جو حکومت چھپاتی ہے۔

میں نے ایشون کی توجہ کشمیر میں غیرشناختی قبروں کی جانب کرائی جن کے بارے میں عام خیال ہے کہ ہلاکتوں کے بعد بھارتی فوج عسکریت پسندوں یا زیر حراست ہلاک کیے جانے والے افراد کو ان قبروں میں دفنایا کرتی تھی۔ ان پر اب تک صرف نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ فلم میں ایسے دہلانے والے کچھ سین موجود ہیں جہاں بچے ایک سنسان جنگل کی قبروں سے ہڈیاں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے مناظر کو دیکھ کر اکثر فلم بینوں کو سینیما میں آنسو بہاتے پایا گیا۔

میں نے ایشون سے پوچھا کہ کشمیریوں کے مصائب کی صحیح عکاسی کر کے آپ نے اصل میں حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ کیا یہ بڑا رسک نہیں کیوں کہ بھارت میں حکومت مخالف معروف شخصیات کے خلاف مقدمے دائر ہو رہے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایشون کے چہرے پر افسردگی چھاگی۔ وہ تامل کے بعد کہنے لگے ’میں بخوبی جانتا ہوں کہ اس فلم سے حکام کو کتنی تکلیف پہنچی ہے لیکن ان لوگوں کو کتنی تکلیف پہنچائی گئی ہے جن کے عزیزوں کو ہلاک کر کے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کس جگہ اور کس قبر میں دفن ہیں۔ کشمیر ایک بہت بڑا المیہ ہے جس پر سے میں نے پردہ اٹھایا ہے اور دنیا کو دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک قوم سات دہائیوں سے کن مصائب سے گزر رہی ہے۔

’یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو ہر اس بھارتی کو بےچین کرتا رہے گا جس نے کشمیر میں ہو رہی بنیادی حقوق کی پامالیوں کو محسوس نہیں کیا یا نیشنلزم کی آڑ میں اس پر خاموش رہا۔ میں ایسا ہندوستانی نہیں ہوں جو ظلم کی انتہا دیکھ کر خاموش رہ سکے۔ میں اپنے ضمیر کو مار نہیں سکا ہوں۔‘

ایشون نے فلم میں مرکزی کردار کی حیثیت سے  بھی کام کرتے ہوئے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ کشمیر کی تحریک آزادی کو جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ’یہ کوئی گناہ نہیں اگر کشمیری ہندوستان سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس کی اتنی بڑی سزا دی جا رہی ہے کہ سات دہائیوں سے وہ فوجی نرغے میں ہیں۔ کشمیری اگر حق خود ارادیت چاہتے ہیں تو آپ ان کو کب تک بند رکھ سکتے ہیں؟

’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا کردار بھی ماضی میں ٹھیک نہیں رہا اور اسلحہ دے کر بعض نوجوانوں کو ورغلایا گیا۔ یہ ان چند افراد کی تحریک نہیں ہے۔ جموں و کشمیر کی ایک بڑی تعداد حق خودارادیت کی حامی رہی ہےاور وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر کا حل فوراً تلاش کیا جائے ورنہ ہمیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘

’نو فادرز ان کشمیر‘ فلم کو برطانیہ میں اتنی مقبولیت ملی کہ اسے اب برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں بھی دکھایا جا رہا ہے جہاں کشمیر سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے علاوہ برطانیہ کے کئی رکن پارلیمان بھی شامل ہو رہے ہیں۔

کشمیر پر بنائی جانے والی یہ فلم برطانیہ کے بعد بعض یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے تاکہ دنیا کو کشمیر کی صحیح صورت حال سے آگاہ کیا جاسکے۔

ایشون کی فلم دیکھ کر یہ احساس پھر گہرا ہو رہا ہے کہ بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی میں لاکھوں افراد اب بھی موجود ہیں جو کشمیر کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اس پر آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخ کے اس سیاہ باب کو ازسرنو لکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ