بر طانوی ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈولپمنٹ (ڈیفیڈ) کی جانب سے خیبر پختونخوا میں تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی واؤچر سکیم پراجیکٹ کے فنڈز ایسے سکولوں کو دوبارہ جاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جنہیں حکومتی ادارے پہلے سے ہی ’گھوسٹ سکول‘ قرار دے چکے ہیں۔
یہ معاملہ 2019 میں اس وقت سامنے آیا جب اس پراجیکٹ کو چلانے والے ادارے ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے ایک انکوائری رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کی، جس میں کیا گہا کہ اس پراجیکٹ کے تحت کچھ ایسے سکولوں کو فنڈز دیے گئے ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہے، یا ایسے طلبہ کو سکیم کے تحت وظیفہ دیا گیا ہے جو جعلی انرولمنٹ کے تحت رجسٹرڈ تھے۔
اس سکیم کے تحت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سکول کے ایسے بچوں کو پرائمری سطح پر ماہانہ 500 روپے، مڈل سکول کے بچوں کو 600 روپے جبکہ ہائی سکول کے بچوں کو 800 روپے دیے جاتے ہیں، جن کے گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی سرکاری سکول نہ ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود دستاویزات، جس میں گھوسٹ قرار دیے جانے والے سکولوں کو فنڈز جاری کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے، کے مطابق ایسے 76 نجی گھوسٹ سکولز ہیں جہاں جعلی طلبہ کو رجسٹر کیا گیا ہے اور ان پر 2015 سے لے کر 2019 تک سات کروڑ 30 لاکھ کی خرد برد کا الزام ہے، کو جنوری2020 تک دوبارہ چھ کروڑ20 لاکھ روپے واؤچرز کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق پچھلے سال جب یہ معاملہ سامنے آیا تو صوبائی حکومت نے اس کی انکوائری کا آغاز کیا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی صوبائی انسپیکشن ٹیم نے خود جاکر ایسے سکولوں کو چیک کیا، جنہیں فنڈز ادا کیے گئے تھے اور ان پر مبینہ خرد برد کا الزام تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ میں گھوسٹ یا ایسے سکول جہاں رجسٹرڈ طلبہ کم اورفنڈز زیادہ دیے گئے تھے، کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اسی طرح صوبائی حکومت کی جانب سے آڈٹ رپورٹ میں بھی ایسے سکولوں کی نشاندہی کی گئی۔
تاہم ان رپورٹس میں موجود گھوسٹ سکولوں یا جعلی انرولمنٹ والے سکولوں کے ناموں کا جب حالیہ سکولوں کے ناموں سے موازنہ کیا گیا تو ان میں وہ سکولز بھی موجود تھے جن پر خردبرد کا الزام تھا اور صوبائی اداروں کے رپورٹس کے مطابق ان سکولوں سے ریکوری کرنی تھی۔
صوبائی حکومت کی اس وقت کی ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی فائنڈنگ رپورٹس میں ایسے 116 سکولوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن پر خردبرد کا الزام تھا۔
ان سکولوں میں مانسہرہ میں51، پشاور میں 32، کوہاٹ میں نو اور سوات میں 24 سکولز شامل تھے جن سے تقریباً 11 کروڑ کی ریکوری کی سفارش کی گئی تھی۔ اس سارے معاملے کے بعد صوبائی حکومت نے پورے صوبے میں ان سکولوں کو خود جاکر چیک کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ طلبہ کو چیک کیا جاسکے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ضلعی تعلیمی محکموں کی رپورٹ کی فائنڈنگ کے مطابق 2019 تک 71 ہزار سے زائد واؤچرز طلبہ کے نام جاری کیے گئے، جن میں سے ضلعی محکموں نے51 ہزار طلبہ کی تصدیق کی جبکہ باقی 20 ہزار واؤچرز جعلی طلبہ کے ناموں پر جاری کیے گئے۔
برطانوی غیر سرکاری ادارے ڈیفیڈ نے اس پراجیکٹ کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کو چھ ارب روپے سے زائد کی رقم دی ہے۔ اس پراجیکٹ کا اجرا 2014 میں کیا گیا تھا۔ پہلے اسے پشاور کے پانچ یونین سکولوں میں شروع کیا گیا اور بعد میں اس کا دائرہ کار بڑھا کر پشاور، مانسہرہ، کوہاٹ، ڈی آئی خان اور سوات کو بھی شامل کرلیا گیا لیکن اب اس کو پورے صوبے تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن جو حکومت کا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس پراجیکٹ کو دیکھ رہا ہے، کے سربراہ جاوید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد فاؤنڈیشن نے خود سکولوں اور طلبہ کو چیک کیا اور ایک ہزار سے زائد سکولوں میں سے 628 کی تصیدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے صرف ان سکولوں کو پراجیکٹ میں شامل کیا ہے جو پرائیوٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ تھے جبکہ باقی سکولز اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں تھے۔
جب جاوید اقبال سے پوچھا گیا کہ پہلے سے گھوسٹ قرار دیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ کیوں فنڈز دیے گئے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ گھوسٹ سکولوں کے نام کا استعمال تو ختم ہوگیا کیونکہ ابھی ہم نے600 سے زائد سکولوں کی تصدیق کی ہے لیکن جن سکولوں نے جعلی طلبہ کے نام واؤچرز جاری کیے ہیں، ان کے جنوری2018 سے مارچ 2019 تک کے فنڈز ہم نے روکے تھے لیکن اب ہم نے ان کو فنڈز اس لیے جاری کیے تاکہ جو بچے رجسٹرڈ ہیں ان کا تعلیمی سلسلہ متاثر نہ ہو۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر ایک سکول مالک نے غلط تعداد بتائی ہے اور جعلی طلبہ کے نام واؤچرز جاری کیے ہیں تو ان کے خلاف تو انکوائری کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ ان کو مزید فنڈز دیے جائیں؟ جس پر جاوید اقبال نے بتایا کہ ہم ان سے ریکوری کریں گے اور ان کا معاہدہ بھی مارچ 2020 میں منسوخ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے مجبوراً ان سکولوں کو فنڈز جاری کرنے شروع کیے، وجہ یہ تھی کہ بچوں کے والدین خود سوزی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کیونکہ وہ سکولوں کی فیس ادا نہیں کرسکتے تھے۔
بچوں کا بھی جعلی ناموں سے اندراج
پراجیکٹ کے حوالے سے آگاہ ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکولوں میں ’جعلی انرولمنٹ‘ چھپانے کے لیے بچوں کے اصلی کی بجائے جعلی نام درج کیے گئے تھے تاکہ انسپکشن ٹیم کو اصلی نام کی بجائے سکول کا نام بتا سکیں اور جاری کیے گئے جعلی واؤچر کو تصدیق شدہ تسلیم کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔