ایک منٹ کی بھول صدیوں کا پچھتاوا

پشاور میں کسی سکول کی جانب سے یہ پیغام والدین کے نام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ سکول انتظامیہ نے جن جن نکات کی نشاندہی کی ہے، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں ہے۔

سکول انتظامیہ کی جانب سے والدین کے نام ایک پیغام تھا، کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ہرگز اکیلا باہر جانے مت دیں (اے ایف پی)

گذشتہ روز ایک صحافی دوست نے اپنے وٹس اپ سٹیٹس پر پشاور کے ایک سکول کا نوٹس لگایا تھا جس میں سکول انتظامیہ کی جانب سے والدین کے نام ایک پیغام تھا، کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ہرگز اکیلا باہر جانے مت دیں، بے شک وہ ٹیوشن کے لیے جا رہے ہوں یا قران شریف پڑھنے جارہے ہوں، یا پھر وہ گلی محلے کی دکان تک جا رہے ہوں، سکول پک اینڈ ڈراپ کے لیے اور خاص طور پر رشتہ داروں کے گھر اپنے بچے اور بچیوں کے آنے اور جانے کا خاص خیال رکھیں، کیونکہ باہر انسانوں کے شکل میں درندے اور بھیڑیے دندناتے پھر رہے ہیں۔

جنہیں نہ تو کسی کی عزت کا مان ہے اور نہ کسی کی جان پیاری ہے۔ وہ جانور، ان معصوموں پہ کسی بھی وقت حملہ کرسکتے ہیں۔ لہذا تمام والدین اپنے بچوں کی حفاظت میں ایک منٹ کی بھی بھول مت کریں۔ ورنہ ساری زندگی کے لیے پچھتاوا اور رونا نصیبوں میں ملے گا۔

پشاور میں کسی سکول کی جانب سے یہ پیغام والدین کے نام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ سکول انتظامیہ نے جن جن نکات کی نشاندہی کی ہے، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں ہے۔ ہم میں سے اکثر والدین بچوں کو چھوٹی ہی عمر میں بڑے بڑے کام حوالہ کر دیتے ہیں، کہ یہ کام بچے کے ذمہ ہے کیونکہ وہی کام ہم نے بھی بچپن میں کیے ہیں۔

دودھ ہم نے بھی بچپن میں کسی گھر سے لایا ہے تو یہ لازمی عنصر بن گیا ہے کہ ہمارے بچے بھی دودھ کسی نہ کسی گھر یا بازار سے لائیں گے۔ چھوٹی چھوٹی اشیا کے لیے جیسے ماچس کی ڈبی ختم ہوگئی تو ہم نے دوڑ لگا دی تھی تو آج ماچس کے لیے لازمی ہے کہ ہمارے بچے بھی جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم اکیلے ٹیوشن پڑھنے گئے ہیں، دینی سبق پڑھنے گئے ہیں تو ہمارے بچے بھی اُسی طرح اسے اپنا فرض سمجھ کر نبھائیں گے اور خود ہی یہ فریضہ انجام دیں گے، جس کے بارے میں ہم بچوں سے پوچھیں گے بھی نہیں کہ وہاں ٹیوشن میں کیا ہوا۔ دینی سبق پڑھنے کی کارگزاری ہم بالکل نہیں پوچھتے کیونکہ بچوں کے ذہنوں میں ہم نے ایک دھاک بٹھائی ہوئی ہے کہ وہ کچھ بھی شئیر کرتے ہوئے ڈر رہا ہوگا۔

اگر اُن کے ساتھ کوئی درندگی سے پیش بھی آتا ہے یا ہمارا بچہ یا بچی کسی رشتہ دار کے گھر جانے سے یا کسی کا نام سننے سے خوف میں مبتلا ہوتا ہے تو ہم اسے اگنور کر دیتے ہیں کہ بچہ ہے ڈرتا ہے۔ ہم گلی محلے کی دکانوں میں بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں ہمیں فکر نہیں ہوتی کہ بچہ اتنی دیر سے کہاں غائب ہے، ہمیں گلی محلے کے دکاندار پر بھروسہ ہوتا ہے، مگر یہی بھروسہ جب خطرناک صورت اختیار کرتا ہے تو ہمیں ہوش آجاتا ہے۔

سکول پک اینڈ ڈراپ کے لیے ہم کافی خوش ہوتے ہیں کہ بچہ سکول جا رہا ہے، مگر کس کے ساتھ جا رہا ہے، کیا اس کے ساتھ کھیلنے میں کوئی بڑا لڑکا تو موجود نہیں یا جس بچے کے ساتھ ہمارا بچہ کھیلنے جاتا ہے وہ خاندان کیسا ہے۔  اس بارے میں پہلے نہیں سوچا جاتا تھا مگر اب والدین کو چوکنا ہوجاچاہیے کہ اب وقت بدل چکا ہے، اب وہ وقت نہیں رہا اب درندگیاں گھروں میں بھی ہونے لگی ہیں۔

خون کے رشتوں پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، باقی تو چھوڑ ہی دیں۔ عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے میڈیا اور دیگر ذرائع پر اس حوالے سے نمایاں کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان واقعات کی جتنی کوریج ہو رہی ہے اتنا ہی اس قسم کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ جس میں آخر میں افسوس کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

حکومت کی جانب سے قوانین بن گئے ہیں مگر وطن عزیز میں قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ کیس کی رونمائی کے کچھ دن تک غوغا ہوتا ہے پھر خاموشی چھا جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ کام جو کہ ایک سکول نے پشاور میں سر انجام دیا ہے اگر یہ حکومتی سطح پر سرانجام دیا جائے اور ملک بھر کے سارے سکول کے سربراہان اس نوٹس کو اپنا کر والدین کو بجھوا دیں تو شنید ہے کہ اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے کیونکہ بچوں کی حفاظت کی ایک منٹ بھول بھی صدیوں کا پچھتاوا بن سکتا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ