عمران خان کو نوبیل انعام دینے کی قرارداد پر بلاول بھٹو کی دلچسپ تنقید

میں نہیں جانتا ہم لوگ کیوں شرمندگی کے شوقین ہیں؟ یہ قرارداد ایوان میں منظور ہوتی یا مسترد، پاکستان کی جگ ہنسائی ہونی ہی تھی، بلاول

چیئرمین پیپلز پارٹی نے  اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اچھے اور برے طالبان، پنجابی طالبان اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا کیا ہوا؟فوٹو: اے ایف پی

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کو نوبیل انعام دینے کی قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیراعظم کو نوبیل انعام دینےکی قرارداد جمع ہوئی، اچھا ہے کہ اسے واپس لے لیا گیا۔

بلاول نے کہا، ’حکومت نے ایک اور یو ٹرن لے لیا، مجھے معلوم نہیں کہ نوبیل امن انعام کے لیے قرارداد کیوں آئی، افواج بارڈر پر شہید ہورہی ہیں اور نوبیل انعام کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ قرارداد ایوان میں منظور ہوتی یا مسترد، پاکستان کی جگ ہنسائی ہونی ہی تھی۔‘

اس بارے میں بات شروع کرتے ہوئے انہوں نے انگریزی میں نہایت طنزیہ انداز میں کہا:

’And  then  we  have … the  Nobel  Peace  Prize‘

اس جملے کے بعد خود بلاول بھٹو زرداری بے تحاشا مسکرائے جبکہ بیشتر اراکین اسمبلی کے قہقہے اور ڈیسک بجانے کی آوازیں بھی گونج اٹھیں۔ اس کے بعد انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، 'میں نہیں جانتا ہم لوگ کیوں شرمندگی کے شوقین ہیں؟'

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر بالفرض ایوان اس بات پر متفق ہوتا کہ عمران خان واقعی نوبیل انعام کے حقدار ہیں تو بھی ساری دنیا نے ہنسنا تھا اور اگر ایوان اس قرارداد کے حق میں متفق نہ ہوتا اور اسے مسترد کر دیا جاتا ، اس صورت میں تو ویسے بھی کسی ملک کے وزیراعظم کے لیے ایسی صورت حال قابل عزت نہ ہوتی۔‘

اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ’مشکل کی گھڑی میں عسکری قیادت کا کردار قابل تحسین ہے، ہم آرمی چیف کوسراہتے ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا اور تمام اہم اقدامات کیے، تاہم وزیراعظم نے بھارتی پائلٹ کو حوالے کرنے میں جلدی کی۔‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’اچھے اور برے طالبان، پنجابی طالبان اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا کیا ہوا؟‘

ان کا کہنا تھا، ’کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کی متضاد پالیسی کیوں منظور کی گئی؟  ہم کب تک دنیا کو کالعدم تنظیموں کے بارے میں معذرتیں پیش کرتے رہیں گے؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کی پالیسی ختم ہونی چاہیے، ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے سے جنگ کرنی ہوگی، کون سا خودمختار ملک ایسی تنظیموں کو برداشت کرتا ہے، پارلیمنٹ اور پاکستان کی یہ پالیسی نہیں ہونی چاہیے، ان کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟ ‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایوان میں یہ سوال بھی اٹھائے کہ ’ہم نیشنل ایکشن پلان پرکیوں بھرپورعملدرآمد نہیں کر رہے، نیز کالعدم تنظیموں پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان