خربوزہ بی بی مہمند ایجنسی کی واحد خاتون دکاندار کیوں ہیں؟

باہمت خربوزہ بی بی قبائلی روایات میں رہ کر اپنے بچوں کی کفالت خود کر رہی ہیں۔

دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی ضلع مہمند کے علاقے گندہاب کی رہائشی خربوزہ بی بی ایک ایسی باہمت خاتون ہیں جو شوہر کی وفات کے بعد قبائلی روایات میں رہ کر اپنے بچوں کی کفالت کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ غربت پہلے بھی تھی لیکن 2010 میں ایک بم دھماکے میں شوہر کے ہلاک ہونے کے بعد ان کی زندگی بہت مشکل ہوگئی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ شوہر کی وفات کے بعد ان کا اور ان تین بچوں کا واحد آسرا بھی ختم ہوگیا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور امداد میں ملنے والے راشن کو فروخت کرکے اس سے گھر کے اندر دکان بنالی جس سے ان کے گھر کا چولہا جلتا رہتا ہے۔

’میرے شوہر رشید غنی پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس بم دھماکے میں اور بھی بہت سے لوگ مارے گئے۔ اس بات کو 10 سال ہوچکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس دکان کو آٹھ سال ہوچکے ہیں۔ ایک این جی او نے امداد کے طور پر سامان دیا تھا، جس میں ریفریجریٹر، ترازو، گھی اور چاول وغیرہ شامل تھا، اسے میں نے بازار میں فروخت کرکے اس سے دکان کے لیے سودا خرید لیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ان کے اردگرد اور بھی بیوہ خواتین ہیں، جن کی کفالت ان کے بیٹے کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کا گزارہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے دکان شروع کی۔

خربوزہ بی بی نے بتایا: ’سودا لینے کے لیے لوگ آتے ہیں۔ اگر شادی بیاہ ہو تو بہت زیادہ سامان فروخت ہوجاتا ہے اور عام دنوں میں کم سامان نکل جاتا ہے۔‘

خربوزہ بی بی کے تین بچے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی نے میٹرک تک پڑھا ہے، دوسری نے آٹھویں تک جبکہ بیٹا تیسری جماعت میں پڑھتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’اسی دکان کی آمدن سے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتی ہوں۔ میری ایک بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ بیٹا تعلیم حاصل کرکے استاد یا بڑا افسر بن جائے۔‘

خربوزہ بی بی نے بتایا کہ بم دھماکے میں شوہر کی ہلاکت پر حکومت نے انہیں امداد کے طور پر تین لاکھ روپے دیے تھے لیکن وہ قرض داروں کو چلے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی زندگی میں بہت مشکلات ہیں، لیکن وہ اس سب کے باوجود بھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بخوبی نبھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین