جنسی تعلق پر راغب کرنے والے پاکستانی ملک بدری کے باوجود برطانیہ میں

کم عمر لڑکیوں کو نشے اور جنسی تعلق پر راغب کرنے والے تین پاکستانی 18 ماہ قبل ملک بدری کے احکامات کے باوجود اب تک برطانیہ میں ہی موجود ہیں۔

برطانوی ہوم آفس نے 2015 میں تینوں افراد کی برطانوی شہریت منسوخ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا(اے ایف پی)

برطانوی عدالت نے بدنام زمانہ گرومنگ گینگ کے تین اراکین کی برطانوی شہریت منسوخ کرتے ہوئے انہیں پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے احکامات دیے تھے۔ 2018 میں جاری ہونے والے احکامات کے مطابق گینگ کے تینوں پاکستانی شہری برطانیہ میں مزید قیام نہیں کرسکتے تھے اور ممکنہ طور پر انہیں پاکستان واپس بھیجا جانا تھا۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہری عبدالعزیز، عادل خان اور قاری عبدالرؤف شمالی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ان نو پاکستانیوں اور افغانیوں کے گینگ میں شامل تھے جنہیں کم عمر لڑکیوں کو نشے اور شراب کے ذریعے جنسی تعلقات میں راغب کرنے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

حالیہ خبروں کے مطابق بچوں سے جنسی بدسلوکی کے مرتکب گروہ روچ ڈیل گرومنگ گینگ سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں ارکان اپنی برطانوی شہریت سے محرومی کے خلاف اپیل مسترد ہونے کے بعد بھی 18 ماہ سے برطانیہ میں موجود ہیں۔

عبدالعزیز، عادل خان اور قاری عبدالرؤف کے ہاتھوں بدسلوکی کا نشانہ بننے والے بچوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے ان افراد کو حال ہی میں گریٹ مانچسٹر کے علاقے میں دیکھا ہے۔  تینوں افراد جیل سے رہائی کے بعد اُس قصبے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں وہ کئی سال تک بچوں کو بدسلوکی کا نشانہ بناتے رہے۔

 40 برس سے زیادہ کی عمر میں عادل خان نے ایک کم عمر لڑکی کو حاملہ کر دیا تھا جب کہ عزیز اور رؤف نے نوعمر لڑکیوں کو جنسی عمل  کے لیے اپنی ٹیکسیوں میں سمگل کیا تھا۔

پراسیکیوٹروں میں سے ایک جنہوں نے روچ ڈیل گرومنگ گینگ پر الزامات عائد کئے، نے کہا ہے کہ متاثرہ بچوں کے مطابق انہوں نے کرسمس کے بعد سے تینوں افراد کو کئی بار دیکھا ہے۔

شمال مغربی برطانیہ کے لیے سابق چیف کراؤن پراسیکیوٹر نذیرافضل آرڈر آف دی برٹش امپائر (فلاحی کاموں پر ملنے والا برطانوی تمغہ) نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہوم آفس جمیکا سے تعلق رکھنے والے مجرموں سے جس تندہی سے نمٹ رہا ہے اس کے پیش نظر مجھے،  متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کو کسی قدر حیرت ہے کہ یہ لوگ کیسے روچ ڈیل کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور ان بچوں کو دکھائی بھی دے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے بدسلوکی کا نشانہ بنایا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ پڑھ کر کہ جمیکا بدر کیے جانے والے افراد میں سے ایک کو صرف خطرناک ڈرائیونگ کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، کسی کو سوال کرنا ہو گا کہ آیا غلط انداز میں کار چلانا زیادہ خطرناک معاملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ اُس شخص کے مقابلے میں زیادہ ترجیحی معاملہ ہے جس نے بچوں سے بدسلوکی کی۔‘

برطانوی ہوم آفس نے 2015 میں تینوں افراد کی برطانوی شہریت منسوخ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے’سنگین اور منظم جرائم‘ کی وجہ سے یہ اقدام عوامی مفاد میں ہے۔

عزیز، خان اور رؤف نے ہوم آفس کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا لیکن اگست 2018 میں وہ کورٹ آف اپیل میں مقدمہ ہار گئے جس کے بعد انہیں پاکستان بدر کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ تینوں مجرم دہری شہریت کے مالک ہیں۔ وہ پاکستان سے برطانیہ گئے لیکن انہیں برطانوی شہریت مل گئی۔

جج نے کہا کہ ان کی برطانوی شہریت ختم کرنے کے لیے ہوم آفس کے اقدامات’ان کی ممکنہ طور پر پاکستان بدری سے پہلے کا عمل ہیں۔‘

تینوں نے ہوم آفس کے فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ فیصلہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ان کے بچوں کے مفاد کے منافی ہے لیکن حکومت کے فرسٹ ٹیئر ٹربیونل ( ایف ٹی ٹی) اور اپر ٹربیونل دونوں نے ان کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

برطانوی کورٹ آف اپیل نے فیصلہ دیا کہ ہوم آفس اور ایف ٹی ٹی نے خلاف قانون کام نہیں کیا اور انہیں’اختیار ہے وہ یہ طے کریں کہ ہر درخواست گزار کے کیس میں شہریت کا خاتمہ‘قانون کے مطابق ہو گا۔

لارڈ جسٹس سیلز نے کہا: ’تمام افراد نے لڑکیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسے ان کی کوئی اہمیت اور عزت نہ ہو۔ ان افراد پر شہوت اور لالچ کا غلبہ تھا۔‘

2012 میں انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ وہ ایک گروہ کا حصہ تھے جس نے 13 برس کی لڑکیوں کو شراب اور منشیات دیں اور انہیں سیکس کے لیے دوسروں کے حوالے کر دیا۔

عزیز جو ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں انہیں’دا ماسٹر‘کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ گروہ کے سرغنہ تھے۔ انہیں 15 سالہ لڑکی کو سیکس کے لیے سمگل کرنے اور ایک بچے کے ساتھ جنسی فعل کی سازش کرنے پر نو سال قید کی سزا دی گئی۔ بچے سے بدسلوکی کے وقت وہ شادی شدہ اور ان کے تین بچے تھے۔

خان بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ انہیں سازش اور ایک 13 سالہ لڑکی کو سمگل کرنے کے جرم میں آٹھ سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ جب ان کی عمر 40 سال سے زیادہ تھی تو انہوں نے لڑکی کو حاملہ کر دیا۔ انہوں نے ایک 15 سالہ لڑکی کو بھی نشانہ بنایا اور جب اس نے  بدسلوکی کی شکایت کی تو انہوں نے اس پر جسمانی تشدد کیا۔

رؤف شادی شدہ ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور ان کے پانچ بچے ہیں۔ انہیں کم عمر لڑکی کو سمگل کرنے اور ایک بچے کے ساتھ جنسی فعل کی سازش پر چھ سال قید کی سزا دی گئی۔ وہ متاثرہ لڑکی کو گاڑی میں بٹھا کراس مقام پر لے گئے جہاں اس نے ان کے اور دوسرے افراد کے ساتھ 20 بار تک جنسی عمل کیا۔

شریک مدعا علیہ اور گرومنگ رنگ لیڈر شبیر احمد کو بھی مطلع کر دیا گیا تھا کہ ان کی برطانوی شہریت چھین لی جائے گی تاہم وہ ریپ کے الزام میں سنائی گئی 22 سال قید کی سزا مکمل کریں گے۔

روچ ڈیل میں عزیز، خان اور رؤف کی مسلسل موجودگی اس وقت سامنے آئی جب جمیکا کے لیے ڈی پورٹ کی جانے والی پرواز کے خلاف حکومت کو قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ طیارے پر سوار 50 کے قریب تمام افراد کو قانونی معاونت تک رسائی حاصل نہیں تھی جس کے بعد گذشتہ ماہ طیارہ صرف 17 افراد کے ساتھ روانہ ہوا۔

تناسب سے متعلق سوالات اس وقت بھی کھڑے ہوئے جب یہ بات سامنے آئی کہ ایک جلاوطن کیے جانے والے فرد کو محض خطرناک ڈرائیونگ کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔

ظاہر ہے حکومت روچ ڈیل کیس پر تبصرہ نہیں کرے گی تاہم اس کا کہنا کہ 2010 کے بعد سے اب تک 51 ہزار سے زیادہ غیر ملکی مجرموں کو ملک بدر کیا گیا۔

حکومت نے جمیکا ڈی پورٹ کی جانے والی پرواز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس پر سوار افراد سنگین یا مستقل جرائم میں ملوث تھے اور ان میں ریپ، پرتشدد جرائم اور منشیات کے جرائم کے مرتکب افراد شامل تھے۔

ہوم آفس کے ایک ترجمان نے مزید کہا: ’حکومت اپنے دائرے اختیار میں رہتے ہوئے ہر وہ اقدام کرے گی تاکہ ان افراد کو ملک بدر کیا جا سکے جو برطانیہ میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ