افغانستان: دھماکوں کی گونج میں دو الگ الگ صدارتی حلف برداریاں

صدر اشرف غنی اور ان کے حریف چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دونوں اپنی متوازی حلف برداریوں میں مصروف تھے کہ دھماکوں کی آواز سنائی دی، جس کے بعد افراتفری پھیل گئی۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں آج ہونے والی دو متوازی صدارتی حلف برداریوں کے ساتھ شہر میں دو دھماکے بھی سنے گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نومنتخب صدر اشرف غنی اور ان کے حریف چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دونوں اپنی متوازی حلف برداریوں میں مصروف تھے کہ دھماکوں کی آواز سنائی دی، جس کے بعد افراتفری پھیل گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھماکے کے دوران اشرف غنی تقریر کر رہے تھے، جب دھماکے کی آواز سنائی دی تو انہوں نے اپنے خطاب میں کہا: ’میں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی، صرف شرٹ پہنی ہے، میں یہیں پر رکوں گا چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔‘

حلف برداری کی دونوں تقاریب میں سینکڑوں افراد موجود تھے۔ اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں متعدد غیر ملکی سفارت کاروں اور اہم سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

اشرف غنی کے صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا: ’سب لوگ محفوظ ہیں اور اشرف غنی سمیت کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔‘

اشرف غنی کی حلف برداری تقریب کے فورا بعد ہی عبداللہ عبداللہ نے حلف اٹھایا۔

گذشتہ برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی کو فاتح قرار دیا گیا تھا مگر عبداللہ عبداللہ نے نتائج نہ مانتے ہوئے اپنے حامیوں کی موجودگی میں حلف برداری کی تقریب کا انعقاد کیا۔

افغانستان میں دو صدور کی تقریب حلف برداری سیاسی کشیدگی کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گذشتہ ماہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے مابین ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سے گذشتہ کئی برسوں سے شورش کے شکار ملک افغانستان میں امن کی راہیں کھلیں گی۔

 اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ نہ صرف امریکہ مئی 2021 تک اپنی فوجوں کا انخلا کرے گا بلکہ امریکہ اور طالبان، افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔  قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز 10 مارچ سے ہوگا، تاہم موجودہ سیاسی حالات میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے ان مذاکرات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا