دلت ذات کا المیہ

 اگرچہ موجودہ دور میں دلت ذات کو ووٹ کا حق ملا، انہوں نے سیاسی جماعتیں بنائیں، سیاسی اقتدار میں بھی آئے، مگر اعلیٰ ذات کے لوگوں میں ان کے خلاف جو تعصب اور نفرت ہے، وہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی ہے۔

چھ مئی 2024 کی اس تصویر میں انڈیا کے شہر آگرہ کے مضافات میں واقع گاؤں آئیلہ میں دلت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

ہندو سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچویں ذات اچھوتوں کی ہے، جو اب دلت کہلاتے ہیں۔ اس میں تمام نچلی ذات کے لوگ شامل ہیں، جنہیں ان کے ماضی اور کلچر سے محروم کر کے اونچی ذات والوں نے ان کی غلامانہ حیثیت بنا دی ہے، جن کا کام محنت و مشقت کرنا ہے، مگر ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔

آریاؤں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مقامی باشندے ان کے زیرِ تسلط آ گئے۔ آریاؤں نے اپنی علیحدگی کو قائم رکھنے کے لیے انہیں داس یا غلام کہا اور ورن کی بنیاد پر، جس کے معنی رنگ کے ہیں، خود کو سفید نسل کا اور مقامی باشندوں کو نہ صرف کالا، بھدا اور بدنما کہا بلکہ انہیں انسان کے درجے ہی سے گرا دیا، جس کی وجہ سے آریا نسل کی برتری ہوئی اور داس یا مقامی لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوئے۔

جب اںہیں انسان ہی نہیں سمجھا گیا تو ان پر کیے گئے ہر ظلم کو جائز سمجھا گیا۔ برہمنوں نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب کا سہارا لیا۔ خاص طور سے رگ وید میں ان کی ذات کو تمام حقوق سے محروم کر کے بے بس کر دیا۔ اس موضوع پر ایس ایم مائیکل کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’جدید انڈیا میں دلت‘ ہے، جس میں مختلف مورخین نے دلت ذات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی ہے۔

اس میں دلت ذات کی تاریخ پر رگ وید کے حوالے کو استعمال کیا گیا ہے۔ رگ وید کے مطابق یہ اچھوت ذات میں اس لیے تبدیل ہوئے کیونکہ ان کا پہلا جنم گناہوں سے بھرا ہوا تھا، جس کی سزا میں انہیں نچلی ذات کا بنایا گیا۔

رگ وید کے مطابق انہیں کوئی وید پڑھنے کی اجازت ہے نہ سننے کی، نہ ہی انہیں مندروں میں جانے کی اجازت ہے، کیونکہ ہر عبادت گاہ میں عبادت گزاروں کا آپس میں میل جول ہو جاتا ہے اور چونکہ یہ ناپاک ہیں، اس لیے انہیں مندروں سے دور رکھنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رگ وید میں آریا دیوتا اندرا کا ذکر ہے، جس نے پانی کے بند توڑ کر داساؤں کی کھیتی باڑی کو تباہ اور ان کے شہروں کو مسمار کر دیا تھا اور ان کا قتل عام کر کے ان کی طاقت کو ختم کر دیا تھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اعلیٰ ذاتوں کے وفادار ہو گئے اور ان کے احکامات پر عمل کرنے لگے۔ ان سے علیحدگی اس قدر تھی کہ انہیں شہروں سے باہر اپنی بستیاں بنانی پڑی تھیں۔ شہروں میں یہ اس وقت داخل ہوتے تھے، جب انسانی فضلہ اٹھانا ہوتا تھا اور شہر کو گندگی سے پاک کرنا ہوتا تھا۔ شہر میں داخل ہونے پر اگر یہ کسی اعلیٰ ذات والے کو آتا دیکھتے تھے تو فوراً زمین پر بیٹھ جاتے تھے تاکہ ان کا سایہ اس پر نہ پڑے۔

اگر کوئی اچھوت غلطی سے کسی کے گھر میں داخل ہو جاتا تھا تو پورا گھر ناپاک قرار دیا جاتا تھا۔ اس کی ہر شے کو جلا دیا جاتا تھا اور پھر گھر کو گائے کے گوبر سے پلستر کر کے پاک کیا جاتا تھا۔

اگر کوئی اچھوت غلطی سے کسی فرد کو چھو لیتا تھا تو اسے تین بار نہانا ہوتا تھا۔ برہمن اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ اچھوت سے بات کرتے وقت دونوں کے درمیان پردہ لٹکا دیا جاتا تھا تا کہ وہ اسے دیکھ نہ سکیں۔

پورے قدیم اور عہدِ وسطیٰ میں اچھوت ذات کے لوگ اس کمتری کی حالت میں رہے۔ انگریزوں کے آنے کے بعد ہندوستان کے معاشرے میں تبدیلیاں آئیں۔ راجہ رام موہن رائے نے برہمو سماج کے ذریعے ہندو مذہب میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ اچھوت جو خود کو اب دلت کہتے ہیں، ان کے حالات میں بھی تبدیلی آئی کیونکہ برطانوی حکومت نے سرکاری سکولوں میں سب کو تعلیم کے مواقع دیے۔

دلت طالب علموں کو پہلی مرتبہ سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے دلت ذات میں نوجوانوں کا ایک تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا۔ اس نے دلت ذات کو پھیلاتے ہوئے اس میں تمام نچلی ذاتوں کو شامل کیا، جن میں موچی، کمہار، بڑھئی کسان اور مزدور شامل تھے۔

برہمن تسلط کے خلاف پہلی مرتبہ دلت ذات نے مزاحمت شروع کی۔ اس کا رہنما مہاراشٹر کا رہنے والا جیوتی رائے پھلے تھا، جس نے برہمنوں کے مذہبی تسلط کو توڑا۔ پیدائش، شادی بیاہ اور موت کے موقعے پر برہمن جو رسومات ادا کرتے تھے، ان کو ختم کیا اور شادی کی رسم میں اب برہمن کو نہیں بلایا جاتا تھا۔ پہلے نے برطانوی حکومت کی حمایت کی، اس کی دلیل یہ تھی کہ برطانوی حکومت نے انہیں برہمنوں سے آزاد کروایا ہے اور دلت ذات کے لوگوں کو سیاسی اور سماجی حقوق ملنے چاہییں اور انہیں بحیثیت انسان کے تمام بنیادی حقوق کا حق ہے۔

دلت ذات کے دوسرے راہنما بابا صاحب امبیڈکر تھے۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے انہوں نے دلت ذات کو کمتری سے نکال کر اسے پراعتماد بنایا۔ انہوں نے اپنی کتاب “Annihilation of the cast” میں دلیل دی ہے کہ جب تک ہندوستان ذات پات سے آزاد نہیں ہو گا، آگے ترقی نہیں کر سکے گا۔

ہندوستان میں مزید سیاسی تبدیلیاں اُس وقت آئیں، جب 1919 میں مونٹیگو چیلمزفورڈ دستوری اصلاحات نے مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دیا تھا۔ بابا صاحب امبیڈکر نے اسی بنیاد پر دلت ذات کے لیے مطالبات کا حل تلاش کیا۔

اس پر گاندھی جی کا سخت ردعمل آیا کیونکہ اس صورت میں دلت ذات کی ایک بڑی تعداد ہندو اتحاد سے علیحدہ ہو جاتی تھی۔ گاندھی نے پونا میں مرن برت رکھ لیا اور بابا صاحب پر ہر طرف سے زور دیا کہ وہ اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں۔

بابا صاحب نے کہا کہ اگر گاندھی جی میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیں تو میں یہ مطالبہ نہیں کروں گا۔ گاندھی جی تیار نہیں ہوئے اور فیصلہ اس پر ہوا کہ دلت ذات کی نشستوں کو بڑھا دیا جائے گا۔ بابا صاحب گاندھی جی اور اعلیٰ ذات کے رویے سے اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے اپنے تین ہزار پیروکاروں کے ساتھ بدھ مذہب اختیار کیا اور اس حیثیت سے انہوں نے ہندوستان کے دستور میں دلت ذات کا تحفظ کیا۔

آزادی کے بعد دلت تعلیم یافتہ نوجوانوں نے دلت پینتھر کی تحریک شروع کی، جس کا مقصد اونچی ذات کے خلاف مزاحمت تھی، جس نے دلت ذات کے لوگوں کو شعور دینے کے لیے ادب، آرٹ اور کلچرل سرگرمیوں کے ذریعے ان میں مضبوط شناخت کا جذبہ پیدا کیا۔ دلت شاعروں نے اپنے اشعار کے ذریعے دلت کے جذبات کا اظہار کیا۔ ’میری کتاب اچھوت لوگوں کی تاریخ‘ میں رضی عابدی نے دلت نظموں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

اگرچہ موجودہ دور میں دلت ذات کو ووٹ کا حق ملا، انہوں نے سیاسی جماعتیں بنائیں، سیاسی اقتدار میں بھی آئے، مگر اعلیٰ ذات کے لوگوں میں ان کے خلاف جو تعصب اور نفرت ہے، وہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ