کشمیر: کرونا وائرس کا لاک ڈاؤن جس پر شہری بھی راضی

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکام نے سری نگر میں سڑکوں پر خاردار تاریں بچھا کر شہریوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکام نے سری نگر میں سڑکوں پر خاردار تاریں بچھا کر شہریوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ نئی رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز جمعرات کو کیا گیا جب شہر کے قدیمی حصے کی ایک خاتون میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

متاثرہ خاتون عمر رسیدہ ہیں اور حال ہی میں سعودی عرب سے لوٹی تھیں۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے شہر کے قدیمی اور مرکزی علاقوں میں چوکیاں بنا لی ہیں تاکہ عوامی نقل و حرکت پر قابو رکھا جا سکے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات چند روز قبل تب شروع ہوئے جب جموں میں تین افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی۔ سری نگر کی بلدیہ نے مساجد، مزارات، سرکاری دفاتر، پارکوں، ہسپتالوں اور بس اڈوں پر جراثیم کش سپرے چھڑکنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ انتظامیہ نے ہوٹل اور ریسٹورنٹ بند کر دینے کا حکم دیا ہے۔

جمعرات کو طبی محکمے کے عملے اور ڈاکٹرز نے قدیمی محلے میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنا شروع کی جو ممکنہ طور پر متاثرہ خاتون کے ساتھ رابطے میں آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سری نگر کے ایک وکیل جی این شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں، وہ بہت سخت ہیں لیکن ضروری بھی ہیں۔‘

یہ بات درست ہے کہ ریاست جموں و کشمیر آٹھ مہینوں سے لاک ڈاؤن میں ہے۔

’لوگوں کو لاک ڈاؤن اتنا اثر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ کشمیر کے لوگ بڑے حساس ہیں۔ یہاں کی سیاسی صورت حال کی وجہ سے اپنے گھروں میں رہنے کے عادی بھی بن چکے ہیں۔ اس سیاسی صورت حال کے پس منظر میں وائرس کا مقابلہ بھی ہمیں مجموعی طور پر کرنا چاہیے۔‘

سلمان نامی رہائشی نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ انتظامیہ نہیں چاہے گی کہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ اموات ہوں۔ کشمیر میں کرونا وائرس رک جائے تاکہ اس بیماری سے ہم دور بھاگیں۔‘

شاہد احمد نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے خطرے کے باوجود ’بھارتی حکومت بری ہے کیونکہ بہت عرصے سے فور جی انٹرنیٹ بحال نہیں کیا گیا۔ 'میرے خیال میں انہیں انٹرنیٹ بحال کر دینا چاہیے تاکہ مشکل حالات انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو آگہی دی جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا