اسلام آباد پولیس کا سلیوٹ: ینگ ڈاکٹر کی کہانی انہی کی زبانی

دنیا بھر میں کرونا (کورونا) کی وبا پھیلنے کے بعد ڈاکٹر اور نرسز اس وائرس کے خلاف لڑنے والوں میں فرنٹ لائن فائٹرز کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔

 اسلام آباد پولیس کے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ تصویر پوسٹ ہوتے ہی وائرل ہو گئی (اسلام آباد پولیس/ٹوئٹر)

دنیا بھر میں کرونا (کورونا) کی وبا پھیلنے کے بعد ڈاکٹر اور نرسز اس وائرس کے خلاف لڑنے والوں میں فرنٹ لائن فائٹرز کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ بیشتر ممالک میں تو ڈاکٹرز اور نرسز سمیت طبی عملہ بغیر کسی حفاظتی لباس کے اپنا انسانی فریضہ سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

 پاکستان بھی انہیں ممالک میں سے ایک ہے۔ گلگت میں کرونا مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود کرونا سے متاثر ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کی ہلاکت نے پاکستانی ڈاکٹروں کو درپیش مسائل ایک بار موضوع بحث بنا دیے ہیں۔

چین کے شہر ووہان میں کرونا کی وبا پہ بڑی حد تک قابو پانے کے بعد ڈاکٹرز جب اس شہر کے ہنگامی طور پر تعمیر کیے جانے والے ہسپتالوں سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو پولیس اور دیگر شہری اداروں کے اہلکاروں نے انہیں سلیوٹ کر کے خراج تحسین پیش کیا۔ اسی طرح کے مناظر اٹلی اور ایران سمیت کئی اور ممالک میں بھی نظر آ رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت پیش آیا جب راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے طالب علم ڈاکٹر علی حسن ایک ضروری کام سے راولپنڈی سے اسلام آباد آ رہے تھے۔

 انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر علی حسن نے بتایا کہ  26 مارچ کو تقریباً دن 12 بجے وہ اپنے والد کے ساتھ جب اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو روکا اور ان سے ان کی شناخت جاننے کے لیے سوال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اسی دوران ایک پولیس اہلکار کی نظر ان کی گاڑی میں موجود ان کے سفید کوٹ پر پڑی تو پولیس اہلکار نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ڈاکٹر ہیں جس کا جواب علی حسن نے ہاں کی صورت میں دیا۔

 جس کے بعد پولیس اہلکار نے ان سے درخواست کی کہ کیا آپ کوٹ پہن کر گاڑی سے باہر آسکتے ہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی ہم کسی ڈاکٹر کو دیکھیں تو انہیں سلیوٹ کریں تاکہ کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ڈاکٹروں کے کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جا سکے اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔

 اسلام آباد پولیس کے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ تصویر پوسٹ ہوتے ہی وائرل ہو گئی اور اس پر لوگوں کی جانب سے پولیس اور ڈاکٹرز دونوں کے لیے تعریفی کلمات لکھے جانے لگے۔

میڈیکل کے طلبہ کو کرونا کی وبا پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر ان کے اداروں کی جانب سے تعطیلات دے دی گئیں ہیں لیکن علی حسن گھر پر فارغ بیٹھنے اور نیٹ فلیکس اینڈ چل کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آن لائن سیشنز اور ڈور ٹو ڈور کیمپینز کے ذریعے لوگوں کو کرونا سے بچنے کے طریقے اور اس بیماری کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہے ہیں۔

 علی حسن کے مطابق ان کے اساتذہ اور سینئیرز کی جانب سے انہیں ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ تعطیلات کے دوران اپنے گھروں پر رہتے ہوئے بھی لوگوں کو کرونا کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتے رہیں۔

ان کے مطابق وہ اور ان کے باقی ساتھ اب تک 151 آن لائن سیشنز کر چکے ہیں جس میں وہ عام لوگوں اور ساتھی ڈاکٹرز کو کرونا وائرس کے حوالے سے آگاہی فراہم کر چکے ہیں۔

علی حسن کا تعلق سنک ( ایس وائے این سی ایچ ) نامی غیر منافع بخش ادارے سے ہے جس میں 40 میڈیکل کالجز سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1000 ڈاکٹر شامل ہیں۔ علی حسن کا کہنا ہے کہ وہ کرونا سے نمٹنے کے لیے ڈور ٹو ڈور کیمپینز کے علاوہ لاک ڈاؤن سے پہلے سرکاری ہسپتالوں اور ہوائی اڈوں پر بھی جا کر کرونا وائرس کے حوالے سے ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کو معلومات اور آگاہی فراہم کرتے رہے ہیں۔

 اس کے علاوہ وہ اور ان کے ساتھی لاک ڈاؤن کے دوران مشکلات کے شکار افراد کے لیے ماہانہ راشن فراہم کرنے کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ علی حسن کا کہنا ہے ان تمام سرگرمیوں کے اخراجات وہ اور ان کے ساتھی رضاکارانہ بنیادوں پر اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں حکومتی اداروں یا مخیر حضرات کی جانب سے کوئی مدد حاصل نہیں ہے۔

علی حسن کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کا علاج کرتے ڈاکٹروں سے اظہار یکجہتی کے طو پر 27 مارچ کو ’ڈاکٹرز ڈے‘ منایا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان