وہ جنہیں انسانیت عزیز ہے

کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے دوران جہاں منافع خور اور مالی فوائد بٹورنے والے سامنے آئے، وہیں بہت سے ایسے ہیروز بھی منظرعام پر آئے جنہیں معاوضے کی لالچ نہیں ہے۔

'گو گرین' ویلفئیر سوسائٹی نے لاک ڈاؤن کے دوران  ایسے خاندانوں میں راشن تقسیم کیے، جو روز دیہاڑی لگائیں تو گھر کا چولہا جلتا ہے (تصویر: گو گرین)

کہتے ہیں مصیبت کی گھڑی میں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ  کون آپ کا اپنا ہے اور کون اپنا ہونے کا ڈراما کر رہا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا پھیلی تو ملک میں جہاں کئی ذخیرہ اندوز، منافع خور اور جعلی سینیٹائزر بنانے والے اور اس صورت حال میں بھی ذاتی مالی فائدہ اٹھانے والے سامنے آئے، وہیں کئی ایسے ہیروز بھی منظرعام پر آئے، جنہیں معاوضے کی لالچ نہیں ہے۔

'گو گرین' ویلفئیر سوسائٹی ایک ایسی تنظیم ہے جس کو چلانے والے بیشتر ارکان تعلیمی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو بین الاقوامی تو کیا مقامی فنڈنگ بھی حاصل نہیں بلکہ اس سوسائٹی کے اراکین اپنے دوست احباب کی مدد سے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔

اس سوسائٹی نے جہاں پنجاب کو سرسبز بنانے کی ٹھانی ہے وہیں یہ 'پانچویں پاس' کے نام سے ایک پروجیکٹ بھی چلاتے ہیں جس میں لاہور، شاہدرہ، مریدکے اور تونسہ میں پانچ مختلف مقامات پر ایسے بچوں کو پانچویں تک مفت تعلیم دی جاتی ہے، جن کے لیے پڑھنا لکھنا ایک خواب ہوتا ہے۔ یہ سارے بچے ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں دیہاڑی ملتی ہے تو گھر کا چولہا جلتا ہے جبکہ کچھ خاندان خانہ بدوشوں کے بھی ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ خواجہ سراؤں کی فنی تربیت کا کام بھی کرتے ہیں، جن میں میک اپ کی تربیت، کوکنگ کورسز وغیرہ شامل ہیں۔

گوگرین ویلفئیر سوسائٹی کی روح رواں عاصمہ فرہاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر بہت سے گروپس کی رکن ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران جب ان کی تنظیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے تقریباً 100 خاندانوں اور 50 خواجہ سراؤں کے لیے  سوشل میڈیا پر مدد کی اپیل کی گئی تو ان کے پاس چھ لاکھ روپے کی رقم جمع ہوئی جس سے انہوں نے راشن بیگز تیار کیے، جو ایک مہینے  کے لیے کافی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عاصمہ نے بتایا کہ ان کا ارادہ تھا کہ ان راشن بیگز میں آٹا بھی شامل کریں مگر بدقسمتی سے انہیں 100 خاندانوں کے لیے کافی آٹا کسی نے نہیں دیا، لہذا انہوں نے آٹے کی جگہ راشن بیگ میں چاول شامل کر دیے۔ اس طرح ہر خاندان کو ملنے والے بیگ میں آٹھ کلو چاول، تین کلو چینی، چار کلو مختلف دالیں، کھانا پکانے کا تیل، دودھ اور تین ڈیٹول صابن شامل ہیں جبکہ خواجہ سراؤں کے لیے بنائے گئے بیگز میں بھی یہی اشیا ہیں مگر ان کی مقدار کچھ کم کر دی گئی ہے۔

عاصمہ نے بتایا کہ چونکہ زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے اس لیے راشن کے بیگز بنانے کے لیے دو لوگ تعینات کیے گئے ہیں جبکہ راشن لینے کے لیے خاندان کا ایک فرد خود آئے گا اور اپنا پیک لے کر چلا جائے گا، انہیں آنے جانے کا خرچہ بھی دیا جائے گا جبکہ ان کے اوقات کار اس طرح رکھے گئے ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی شخص آئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جتنا فنڈ اکٹھا ہوا تھا اس میں سے ابھی کچھ پیسے خرچ ہوئے ہیں، باقی پیسوں سے بھی ان لوگوں کی راشن اور دیگر ضروریات پوری کی جائیں گی۔

(تصویر: گو گرین)

دوز ہو نیڈ

دوسری جانب 'دوز ہو نیڈ' (Those Who Need) کے 27 سالہ خامس اپنی ٹیم کے 12 اراکین کے ساتھ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو وہ سامان مہیا کر رہے ہیں جن سے وہ اپنے آپ کو کرونا وائرس سے محفوظ کر سکتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے طالب علم خامس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پہلے تو انہوں نے رضاکارانہ طور پر ہسپتالوں میں ماسک اور سینیٹائزرز مہیا کرنے شروع کیے مگر چونکہ طلب بہت زیادہ تھی تو ہمارے فنڈز ختم ہو گئے جس کے بعد ہم نے ہسپتالوں کے اندر رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ 'ڈاکٹرز کی جو طلب ہوتی ہے اس کے لیے اگر ہمیں کوئی فنڈ دے دے تو اچھی بات ورنہ ڈاکٹرز مل کر ہمیں فنڈز دیتے تھے جیسے سیفٹی کٹ گاؤنز اور ماسکس وغیرہ کے لیے تو وہ ہم مارکیٹ سے ڈھونڈ کر انہیں لا کر دے رہے ہیں۔'

خامس اب اپنے ایک دوست کے، جن کی فیصل آباد میں بیگز بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری ہے، ساتھ مل کر نان ووون مٹیریل کے سیفٹی گاؤنز بھی بنارہے ہیں، جن پر صرف 300 روپے کی لاگت آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی مٹیریل کے بنے سوٹ لاہور میں پہلے سے دستیاب ہیں جو آٹھ سو سے لے کر ہزار روپے میں دستیاب ہیں۔

خامس نے بتایا کہ یقیناً اس سوٹ کا مٹیریل وہ نہیں ہے جو اصل سوٹ کا ہے اور نہ ہی یہ طب کے شعبے میں استعمال ہوتا ہے لیکن چونکہ اصل والے پروٹیکشن سوٹس کی کمی ہے تو لوگوں نے یہ بنانے شروع کر دیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ مٹیریل 80 سے 90 فیصد واٹر پروف ہوتا ہے اور اگر اس پر پریشر سے پانی نہ ڈالا جائے تو یہ لیک نہیں ہوتا۔

خامس نے مزید بتایا کہ انہوں نے چند روز قبل اس سوٹ کے حوالے سے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر پوسٹ لگائی جس کے بعد انہیں مختلف ڈاکٹروں کی طرف سے تقریباً 600 سوٹس کا آرڈر آیا، جو ہم انہیں تین سو میں دیں گے اور اگر ان سوٹس کو لانے لے جانے کا خرچہ زیادہ نہ پڑا تو ہوسکتا ہے کہ اس کی قیمت تین سو روپے سے بھی کم ہو۔

خامس اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر نان ووون مٹیریل کے سیفٹی گاؤنز بھی بنارہے ہیں، جن پر صرف 300 روپے کی لاگت آئے گی۔ (تصویر: دوز ہو نیڈ)


ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کے دو لوگ فیلڈ میں ہوتے ہیں جبکہ باقی فنڈ ریزنگ اور دکانداروں سے رابطے میں مصروف رہتے ہیں۔ 'ہمیں کچھ دکاندار (وینڈرز) تو بالکل بھی سستی چیز نہیں دیتے مگر کچھ یہ دیکھ کر سستا سامان دے دیتے ہیں کہ ہم نے ہسپتالوں کے لیے سامان لینا ہے، جس کے بعد ہم ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سے رابطہ کرتے ہیں کہ فلاں چیز اتنے میں مل رہی ہے، جس جس کو چاہیے وہ بتا دیں، پھر ہم سب کے آرڈرز لے کر دکاندار سے وہ چیزیں لے لیتے ہیں۔'

انہوں نے بتایا کہ پہلے ان سے ہسپتالوں کی انتظامیہ نے بھی رابطہ کیا مگر اب 70 فیصد ڈاکٹرز انفرادی طور پر رابطہ کر رہے ہیں۔

 خامس نے بتایا کہ 'یہ سب کچھ ہم صرف رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں، ایک طرح سے ہم ڈاکٹرز اور دکانداروں کے درمیان ایک پل کا کام کر رہے ہیں۔ جب ان کے پاس فنڈز تھے تو ہم ماسک اور سینیٹائزر مفت دے رہے تھے مگر جو چیز ہماری خرید کی پہنچ سے باہر ہے جیسے این 95 ماسک وہ ہ نہیں دے سکتے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی یہ خدمات صرف ڈاکٹرز کے لیے ہیں، ان کے لیے بالکل نہیں جو ہم سے کم داموں میں اشیا خرید کر آگے مہنگے داموں فروخت کر دیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی ٹیم سب سے پہلے اسی بات کی چھان بین کرتی ہے کہ آرڈر دینے والے واقعی کرونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اشیا کے طلب گار ہیں یا منافع کمانا چاہتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان