ایران نے اتوار کو اپنے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کو ’بلاجواز‘ قرار دیا ہے۔
ایران کے حامی ممالک، روس اور چین کی طرف سے پابندیوں کو اپریل تک مؤخر کرنے کی آخری وقت کی کوشش بھی جمعہ کو سلامتی کونسل میں کافی ووٹ حاصل نہیں کر سکی، جس کے نتیجے میں یہ اقدامات اتوار کو تہران کے وقت کے مطابق صبح تین بج کر 30 منٹ پر عملی شکل میں نافذ ہو گئے۔
وہ اقدامات جو ایران کی ایٹمی اور بیلسٹک میزائل سرگرمیوں سے جڑے لین دین پر پابندی لگاتے ہیں، اس وقت راتوں رات عملی شکل اختیار کر گئے جب مغربی طاقتوں نے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت نام نہاد’سنیپ بیک‘ میکنزم کو متحرک کیا۔
قبل ازیں جوہری پروگرام پر ایران کے مغربی ملکوں کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے جب کہ اسرائیل اور امریکہ نے اس کی جوہری تنصیات پر حملے کیے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’منسوخ کی گئی قراردادوں کو دوبارہ فعال کرنا قانونی طور پر بے بنیاد اور ناقابل جواز ہے۔ تمام ممالک کو اس غیر قانونی صورت حال کو تسلیم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘
وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’ایران اپنے قومی حقوق اور مفادات کا سختی سے دفاع کرے گا اور اس کے عوام کے حقوق اور مفادات کو کمزور کرنے کی نیت سے کی جانے والی ہر کارروائی کا سخت اور مناسب جواب دیا جائے گا۔‘
پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے کشیدہ ماحول میں کئی ماہ سے سفارت کاری ختم ہو گئی جس کا مقصد جون سے تعطل کا شکار جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنا تھا۔ یہ مذاکرات جون میں اس وقت پٹڑی سے اتر گئے جب اسرائیلی اور امریکی افواج نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔
ایران پر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے باوجود مغربی رہنماؤں نے واضح کیا کہ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران پر زور دیا کہ وہ ’صاف نیت کے ساتھ براہ راست بات چیت قبول کرے۔‘
انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ پابندیوں کو ’فوری‘ طور پر لاگو کریں‘ تاکہ ایران کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ اپنی قوم کے لیے جو صحیح ہے، اور دنیا کے تحفظ کے لیے جو بہترین ہے، وہ کریں۔‘
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مسئلے کا ’ایک نیا سفارتی حل‘ تلاش کرتے رہیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ’ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے۔‘
انہوں نے تہران سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشیدگی بڑھانے والے کسی بھی اقدام سے باز رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کوئی راستہ نہیں‘
ایران نے اقوام متحدہ کےمعائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات پر واپس آنے کی اجازت تو دی لیکن صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ امریکہ نے اس کے بدلے میں صرف ایک مختصر مہلت کی پیشکش کی کہ ایران افزودہ یورینیم کا اپنا تمام ذخیرہ امریکہ کے حوالے کر دے۔ صدر نے اس تجویز کو ناقابل قبول قرار دیا۔
جرمنی، جس نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کا مطالبہ کیا، کے وزیر خارجہ جوہن ویڈفول نے کہا کہ جرمنی کے پاس ’کوئی اور راستہ‘ نہیں بچا تھا کیوں کہ ایران اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا تھا۔
پابندیوں کے مالی اثرات
زمینی سطح پر ایرانی شہریوں نے ان نئی پابندیوں کے اپنی پہلے ہی سے خراب معیشت پر پڑنے والے متوقع اثرات پر افسوس کا اظہار کیا۔
ایک ایرانی انجینئر، جس نے اپنا نام صرف داریوش بتایا، نے کہا: ’موجودہ (معاشی) صورت حال پہلے ہی بہت مشکل تھی، لیکن اب یہ مزید بدتر ہونے والی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نئی پابندیوں کا اثر ابھی سے نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ زرِ مبادلہ کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں مزید اوپر جا رہی ہیں۔ معیار زندگی دو یا تین سال پہلے کے مقابلے میں ’بہت کم‘ ہو چکا ہے۔
معاشی دباؤ اتوار کے روز اس وقت مزید واضح ہو گیا جب کرنسی کی صورت حال بتانے والی ویب سائٹس (Bonbast اور AlanChand) کے مطابق بلیک مارکیٹ میں ایرانی ریال امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر گر گیا اور ایک ڈالر تقریباً 11 لاکھ 20 ہزار ریال کا ہو گیا۔