اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے پیش کی گئی قرارداد منظور نہیں کی، تاہم تہران اور اہم یورپی طاقتوں کے پاس اب بھی آٹھ دن باقی ہیں کہ وہ التوا کے معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو ایک 30 روزہ عمل شروع کیا، جسے سنیپ بیک کہا جاتا ہے، تاکہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کی جا سکیں۔
ان ممالک نے الزام عائد کیا تھا کہ ایران نے 2015 کے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی، جس کا مقصد اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنا تھا، تاہم تہران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
15 رکنی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جمعے کو روس، چین، پاکستان اور الجزائر نے اس مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ نو اراکین نے مخالفت کی اور دو نے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلامتی کونسل کے اس ووٹ کے بعد اب ایک ہفتے کی سخت سفارت کاری کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جبکہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان سمیت دیگر عالمی رہنما نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شریک ہیں۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایروانی نے ووٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا: ’سفارت کاری کے دروازے بند نہیں ہوئے، لیکن یہ فیصلہ ایران کرے گا کہ کس کے ساتھ اور کس بنیاد پر بات چیت کی جائے، نہ کہ اس کے مخالفین۔‘
انہوں نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اگلے ہفتے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر یورپی ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے۔ ساتھ ہی ایرانی سفیر نے کہا کہ جمعے کو ہونے والی تقسیم شدہ ووٹنگ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ’کونسل میں کوئی اتفاق رائے موجود نہیں۔‘
امیر سعید ایروانی کے مطابق: ’یہ فیصلہ سفارت کاری کو کمزور کرتا ہے اور عدم پھیلاؤ کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔‘
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پیشکش کی ہے کہ اگر ایران اقوام متحدہ کے ایٹمی معائنہ کاروں کے لیے رسائی بحال کرے، افزودہ یورینیم کے ذخائر پر خدشات کو دور کرے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں شامل ہو، تو وہ پابندیوں کے نفاذ کو چھ ماہ تک مؤخر کرنے پر تیار ہیں تاکہ تہران کے ایٹمی پروگرام پر طویل المدتی معاہدے کے لیے بات چیت کا موقع دیا جا سکے۔
برطانیہ کی اقوام متحدہ میں سفیر باربرا ووڈورڈ نے کونسل کو بتایا: ’جب تک یہ بنیادی شرائط پوری نہیں ہوتیں، کوئی واضح راستہ تیز رفتار سفارتی حل کی طرف نہیں جاتا۔ ہم آئندہ ہفتے اور اس کے بعد بھی اختلافات کو حل کرنے کے لیے مزید سفارتی روابط کے لیے تیار ہیں۔‘
پابندیوں کے نفاذ میں کسی بھی تاخیر کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد درکار ہوگی۔ اگر 27 ستمبر تک توسیع پر کوئی معاہدہ نہ ہوسکا تو اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ نافذ ہوجائیں گی۔
امریکہ کی قائم مقام سفیر ڈوروتھی شی نے کہا کہ اگرچہ واشنگٹن نے جمعے کو ’نہیں‘ (مخالفت) کا ووٹ دیا، لیکن اس سے ’حقیقی سفارت کاری کے امکان میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی،‘ اور یہ کہ ایران پر پابندیوں کی دوبارہ اطلاق ’بعد میں سفارت کاری کے ذریعے ان کے خاتمے کو خارج از امکان نہیں کرتا۔‘
انہوں نے کونسل کو بتایا: ’اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بامعنی، براہِ راست اور وقت کی حد کے اندر مذاکرات کے لیے امریکہ کی مسلسل تیاری کو دہرایا ہے، چاہے یہ عمل 27 ستمبر کو سنیپ بیک کے مکمل ہونے سے پہلے ہو یا بعد میں۔‘
فرانس کے اقوام متحدہ میں سفیر جیروم بونافوں نے کہا کہ جب سے یہ 30 روزہ عمل شروع ہوا ہے، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ اپنے ایرانی ہم منصب سے دو مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔
انہوں نے ووٹنگ سے پہلے کونسل کو بتایا: ’ہمارا ہاتھ اب بھی مذاکراتی حل تلاش کرنے کے لیے بڑھا ہوا ہے۔‘
دوسری جانب، ایران کے قریبی اتحادی روس اور چین نے گذشتہ ماہ کے آخر میں سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا، جس کے تحت 2015 کے معاہدے کو چھ ماہ کے لیے بڑھایا جائے اور تمام فریقین کو فوری طور پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب دی جائے، لیکن ابھی تک انہوں نے اس پر ووٹنگ کی درخواست نہیں کی۔
روس اور چین، جو 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے فریق بھی ہیں، دونوں نے ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی یورپی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔