طالبان قیدیوں کو کب اور کیسے رہا کیا جانا ہے؟

دوحہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی کا عمل 10 مارچ سے پہلے مکمل ہونا تھا لیکن اس میں تاخیر ہوئی ہے۔

دسمبر 2019 کی اس فائل فوٹو  میں کابل کی پل چرخی جیل میں طالبان قیدی دعا کر رہے ہیں (تصویر:اے پی)

افغانستان میں طالبان کا ایک تین رکنی وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے آج کابل پہنچا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ تین رکنی ٹیم قیدیوں کی رہائی کے عمل کی نگرانی کرے گی اور تکنیکی شعبے میں ضروری کارروائی کرے گی۔

تاہم انہوں نے طالبان کے وفد میں شامل تین اراکین کے نام ظاہر نہیں کیے۔

دوسری جانب کابل میں سرکاری اہلکاروں نے طالبان وفد کی کابل آمد سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے عمل کے آغاز کے بعد 10 مارچ سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن اس میں تاخیر پیش آ رہی ہے۔

دوحہ سمجھوتے کے مطابق افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار جبکہ اسلامی تحریک ایک ہزار قیدی رہا کرے گی۔

طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں دوحہ معاہدے کے بعد تین مرتبہ ویڈیو کے ذریعے بات چیت ہو چکی ہے۔

قیدیوں کی رہائی کے عمل میں بین الاقوامی ریڈ کراس بھی شامل ہے، جس کے تحت قیدیوں کو پہلے ریڈ کراس کے حوالے کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم، اس سلسلے میں ابھی بھی بہت مبہم نکات ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان اور افغان حکام کے اعداد وشمار میں تضاد ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے پیش کی جانے والی شرائط پر بھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔

طالبان نے جیل سے قیدیوں کی غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں ضمانت دی جانے کی ضرورت ہے کہ یہ قیدی دوبارہ جنگی صفوں میں شامل نہیں ہو جائیں گے۔

افغانستان میں حکام کا خیال ہے کہ طالبان نے تشدد میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے۔ افغان سکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان نے جنگ بندی کو قبول نہیں کیا اور تشدد میں اضافہ کیا ہے۔ ’یہ باتیں طالبان کی آزادی کے عمل میں خلل ڈال سکتی ہیں۔‘

تاہم، افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کابل میں طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان امریکیوں سے بات چیت کے لیے کئی روز پہلے بگرام کے فوجی اڈے پہنچے ہیں۔ انہیں امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بگرام اڈے منتقل کیا گیا۔ ان رپورٹس کو بعد میں افغان حکومت اور طالبان دونوں نے مسترد کیا۔

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغان قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک وفد کابل جانا تھا لیکن عوامی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے اس سفر میں تاخیر ہوئی ہے۔

ادھر طالبان کی جانب سے افغان سکیورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں، جن کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ افغان حکام کے مطابق اتوار کی شام تخار میں ایک حملے میں چھ فوجیوں اور 13 پولیس اہلکاروں کو کئی چوکیوں پر حملوں میں ہلاک کیا۔ اس کے علاوہ زابل میں سوموار کی صبح ایک حملے میں بھی کم از کم چھ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔  

امریکہ اس صوت حال میں امن معاہدے کو ٹوٹنے سے بچانے کی خاطر افغان حکومت پر کافی دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں طالبان قیدیوں کو بغیر کسی ضمانت کے رہا کرنے کا زیادہ امکان ہے۔

قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہو سکیں گے۔ قیدیوں کی رہائی کو ہی دوحہ امن معاہدے کا پہلا سخت چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا