نئی کرونا ریپڈ ٹیسٹ کٹس خراب: کیا خیبر پختونخوا ٹیسٹ تعداد  بڑھا پائے گا؟

بدھ کے روز وزیر صحت تیمور سلیم نے ٹیوٹ کیا تھا کہ 'اب تک ہم روزانہ 300  تک کرونا ٹیسٹ کروا رہے ہیں اور ہم اس کو روزانہ کی بنیاد پر 1000  تک پہنچائیں گے۔'

(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا اور مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے کئی مرتبہ پریس کانفرنس اور ٹویٹر پر بتایا  ہے کہ صوبائی حکومت کرونا (کورونا) وائرس کی تشخص کے لیے ٹیسٹ کی تعداد بہت جلد بڑھائے گی تاہم محکمہ صحت کے ذرائع اس قسم کے بیانات کو محض سیاسی نوعیت کا سمجھتے ہیں اور ان کے خیال  میں زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

صوبائی حکومت کے اہلکاران سمجھتے ہیں کہ صوبے کو چونکہ کرونا ٹیسٹ کے لیے استعمال ریپیڈ پی سی آر ٹیسٹ کٹس مل گئی تھیں تو اسی وجہ سے وہ دعوی کرتے تھے کہ  اب ٹیسٹ کی تعداد  بڑھا لیں گے۔

بدھ کے روز وزیر صحت تیمور سلیم نے ٹیوٹ کیا تھا کہ 'اب تک ہم روزانہ 300  تک کرونا ٹیسٹ کروا رہے ہیں اور ہم اس کو روزانہ کی بنیاد پر 1000  تک پہنچائیں گے۔'

تاہم وزیر صحت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس طرح ٹیسٹ کی تعداد زیادہ کریں گے۔ محکمہ صحت کے اعلٰی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے نے چین سے سینسٹک کمپنی کی کرونا ریپڈ پی سی آر کٹس خریدی تھیں جن کی تعداد 2000 تھی۔

تاہم اہلکار نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں جب ٹرائل کے لیے لایا گیا تو اسلام آباد کے نیشنل ہیلتھ سائنسز کی ٹیم نے اس کو چیک کیا اور تنائج کی درستی میں کئی غلطیاں سامنے آ گئیں۔

چیک کرنے کے بعد حکومت کو ٹیم کے سربراہ نے ایک خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں بھی لکھا کہ اس کٹ کے نتائج ٹھیک نہیں آرہے ہیں۔

اہلکار نے لکھا 'کٹ میں نمونے ڈال دیے گئے اور انہیں مشین پر چلایا گیا تو وہ کٹس فالٹی نکلیں اور وہ درست رزلٹ نہیں دے رہی تھیں۔'

یہی وجہ تھی کہ این آئی ایچ ٹیم نے ساری کٹس سپلائر کو واپس کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بیان دیا کہ 'سپلائیر کے مطابق یہ کٹس کارگو میں لیٹ ہوگئی تھیں جہاں ان کی کولڈ چین (یعنی ان کی کارکردگی برقرار رکھنے کے لیے درکار درجہ حرارت) برقرار نہیں رہی اور اسی وجہ سے ٹیسٹ کے نتائج غلط آنے کا قوی امکان تھا۔'

اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ پھر حکومت کیوں دعوی کر رہی ہے کہ وہ ٹیسٹ کی تعداد بڑھا رہی ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ 2000  کٹس جب موصول ہوئیں تھیں تو یہ زیادہ تر ضلعی ہسپتالوں سمیت قرنطینہ مراکز میں بھجوانی  تھیں جہاں انہیں ریپڈ ٹیسٹ کے لیے استعمال ہونا تھا لیکن چونکہ اب یہ خراب نکلیں تو انہیں حکومت کو واپس کریں گے اور اس کے لیے وقت بھی درکار ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ اب تک صوبائی حکومت خیبر میڈیکل کالج کی لیبارٹری سے 250 ٹیسٹ روزانہ کی بنیاد پر کروا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کہ جتنے نمونے لیب کو بھجوائے جاتے ہیں ان کے ٹیسٹ رزلٹ رات کے چار بجے تک مکمل کیے جاتے ہیں لیکن اس سے زیادہ ٹیسٹ کروانا موجودہ وسائل اور سٹاف  کی موجود گی میں ممکن نہیں ہے کیونکہ  لیب کے سارے ٹیکشینز صبح سے لے کر رات گئے تک ٹیسٹ کرنے میں ہی مصروف ہوتے ہیں۔

ریپیڈ  پی سی آر اور موجودہ رئیل ٹائم پی سی آر  کٹس میں کیا فرق ہے؟

محکمہ صحت کے ایک اور اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کو بتایا کہ موجودہ رئیل ٹائم پی سی آر کٹس اور ریپڈ کٹس میں فرق یہ ہے کہ موجودہ کٹس میں نمونوں سے آر این اے ایکسٹریکشن کی جاتی ہے اور یہ ایک پورے پراسس سے گزارے جاتے ہیں جس میں سات گھنٹے لگتے ہیں جب کہ  ریپڈ ٹیسٹ میں آر این اے ایکسٹریکشن یعنی نمونوں کی ساخت دیکھنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ نمونہ لے کر کٹس میں ڈال دیا جاتا ہے اور تقریبا ایک گھنٹے میں رزلٹ آ جاتا ہے۔

اہلکار نے بتایا 'ریپڈ پی سی آر کٹس میں مخلتف اقسام ہوتی ہیں۔ بعض کٹس صرف ایک ٹیسٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں جب کہ صوبائی حکومت کو جو کٹس ملی تھیں ان پر16  ٹیسٹ ایک ساتھ کیے جاتے ہیں یعنی ایک سے دو گھنٹوں میں 16  ٹیسٹ مکمل کیے جا سکتے ہیں۔'

اس اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ حکو مت پھر کیوں دعوے کر رہی ہے کہ وہ ٹیسٹ کی تعداد بڑھا رہی ہے، تو اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ 'موجودہ کٹس میں 96  ٹیسٹ تقریا 12  گھنٹے لیتے ہیں یعنی 24 گھنٹوں میں تقریبا 200  تک ٹیسٹ ممکن ہیں۔'

لیکن کیا حکومت کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ تمام صوبوں سے نمونے اکھٹا کرے، پھر ان کو لیب  بھجوائے اور  اس کے بعد لیب ٹیسٹ مکمل کر کے رپورٹ  تیار کرے اور  اسے  صوبوں کے حوالے کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال کے جواب میں محکمہ صحت کے اہلکار نے بتایا کہ یہ بیان کی حد  تک  تو ٹھیک ہے لیکن حقیقت میں بہت مشکل کام ہے۔ انھوں نے بتایا 'چلو یہ بھی حکومت نے کردیا کہ نمونے سارے اضلاع سے لیب کو موصول ہو گئے اور ایک ہزار نمونوں میں 300 کے رزلٹ مثبت آگئے، تو کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت ضلعی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ 300  افراد کو ایک ساتھ قرنطینہ کر کے ان کے سارے محلوں اور علاقوں کو لاک ڈاون کرے؟ یہ حقیقت میں اتنا آسان نہیں ہے۔ ابھی حکومت اس سارے مرحلے کو اس لیے کنٹرول کر رہی ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پرایک ضلعے میں چند  ہی مثبت رزلٹ آرہے ہیں۔'

کیا مردان میں کیے گئے ٹیسٹ بھی غلط تھے؟

سوشل میڈیا پر صوبائی لیب کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی تھی کہ منگا (مردان) میں کیے گئے ٹیسٹ میں بھی غلطیاں کی گئی تھیں اور پہلے مرحلے میں ٹیسٹ مثبت جب کہ بعد میں منفی آئے تھے۔ اس حوالے سے خیبر میڈیکل کالج کے ایک لیب اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹیسٹ رزلٹ میں غلط اور صحیح نہیں ہوتا بلکہ نمونے کو مشین میں ڈال دیاجاتا ہے اور وہاں ایک بینچ مارک ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ رزلٹ آنے کے بعد اس کا تجزیہ ہوتا ہے اور کم پازٹیو رزلٹ بھی پازٹیو پی شمار کیا جاتا ہے، ممکن ہے کہ اسی شخص سے اگر اگلے دن نمونہ لیا جائے تو اس کا رزلٹ منفی ہو۔

اہلکار نے بتایا کہ اس لیب کے سارے سیٹ اپ کو این آئی ایچ ٹیم دیکھ چکی ہے اور انھوں نے کسی قسم کی کوئی کمی کے حوالے سے نہیں بتایا اور نہ لیب کے کسی رزلٹ پر شک ظاہر کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے  خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے موقف لینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کو وٹس ایپ پیغامات بھی بھیجے گئے اور ٹویٹر پر بھی  یاد دہانی کروائی گئی لیکن دو دن تک انتظار کرنے کے باوجود انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان