برطانیہ: کرونا کے خلاف جنگ میں جانیں دینے میں پیش پیش پاکستانی

دائیں بازو والے ایک ریڈیو سٹیشن نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’جو لوگ  تارکین وطن کو برطانیہ سے نکالنے کی دھمکی دیتے آ رہے تھے آج یہی تارکین وطن نہ صرف ہمارے لیے اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں بلکہ ہمارے گھروں تک کھانے پینے کا سازوسامان بھی پہنچا رہے ہیں۔‘

کرونا وائرس  کے خلاف جنگ میں تازہ ترین قربانی ڈاکٹر سید ذیشان حیدر کی ہے (فیس بک)

برطانیہ میں جہاں پشتینی باشندے اور طبی عملہ کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر ہو رہا ہے وہیں پاکستانی تارکین وطن بھی اپنی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

برطانیہ میں تقریباً بارہ لاکھ پاکستانی نژاد تارکین وطن آباد ہیں جو زیادہ تر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملازمت کرتے ہیں۔ بیشتر اپنا کاروبار چلاتے ہیں جبکہ تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد قانون اور صحت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔

یہاں کے محکمہ صحت میں پاکستانی ڈاکٹروں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ بعض طب کے مختلف شعبوں میں خاصے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قومی طبی سروسز یعنی این ایچ ایس میں ملازمت کرنے والے تین لاکھ ڈاکٹروں میں دس ہزار پاکستانی ہیں۔

برطانیہ میں اب تک کرونا وائرس  سے تقریباً پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بعض ڈاکٹر اور نرسیں بھی شامل ہیں جو مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود بیماری کا شکار بن کر اپنی جان سے گئے۔

کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں تازہ ترین قربانی ڈاکٹر سید ذیشان حیدر کی ہے جو رامفرڈ میں کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔ ان کے بھتیجے نقی حیدر کا کہنا تھا کہ ان کے چچا نرم دل اور دل سے کام کرنے والے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر حبیب زیدی اور نرس اریمہ نسرین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کرونا وائر کے مریضوں کا علاج جاری رکھا۔

74 برس کے ڈاکٹر حبیب زیدی جنرل پریکٹیشنر تھے اور انہیں سانس کی تکلیف کے فوراً بعد ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن وہ انتقال کرگئے۔

ان کی بیٹی بھی محکمہ صحت میں ڈاکٹر ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد آخری دم تک مریضوں کا علاج کرتے رہے لیکن کرونا وائرس نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ انہیں محض چند رشتہ داروں کی موجودگی میں دفن کیا گیا۔

والسال کے علاقے میں رہائش پذیر اریمہ نسرین اسی ہسپتال میں کرونا وائرس سے دم توڑ بیٹھیں جہاں وہ 17 برسوں سے کام کرتی رہی ہیں۔

ان کے انتقال پر جہاں والسال مینر ہسپتال میں ماتم کا سماں تھا وہیں ان کے علاقے میں ہر کوئی اداس اور افسردہ دکھائی دیا۔

اریمہ نے بڑی منحت اور لگن سے ہر کسی کا دل جیت لیا تھا اور نرسنگ سٹاف میں خاصا مقام حاصل کر چکی تھیں۔

ان کی بہن کزیمہ بھی اسی ہسپتال میں کام کرتی ہیں جو کہتی ہیں کہ وہ اس ہسپتال میں اب کیسے کام کریں گی جہاں اس کی بہن کی یادیں ’ہر شے میں پنہاں  ہیں۔‘ ان کے بغیر یہ ہسپتال کتنا اداس لگے گا؟

اریمہ کی عمر 36 برس تھی اور وہ اپنے پیچھے تین بچوں کو چھوڑ گئیں ہیں لیکن اپنے مریضوں کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک موجود رہیں۔

ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رکھنے والی اریمہ موٹیویشنل سپیکر بھی تھیں اور لوگوں کو اپنے اہداف حاصل کرنے کی ترغیب دیتی رہتی تھیں۔

انہوں نے یونیورسٹی سے گریجویشن کی خوشی میں اپنی تصویر پوسٹ بھی کی تھی اور لکھا:  ’مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ یہ دن دیکھ سکوں گی۔ والسال مینور ہسپتال کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔۔۔خواب حقیقت ضرور بنتے ہیں۔‘

مشہور براڈکاسٹر پیرس مورگن نے اریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوے انہیں ’سپر ہیرو‘ قرار دیا جنہوں نے اپنی زندگی کو مریضوں کے لیے قربان کیا۔ حتیٰ کہ دائیں بازو والے ایک ریڈیو سٹیشن نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’جو لوگ  تارکین وطن کو برطانیہ سے نکالنے کی دھمکی دیتے آ رہے تھے آج یہی تارکین وطن نہ صرف ہمارے لیے اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں بلکہ ہمارے گھروں تک کھانے پینے کا سازوسامان بھی پہنچا رہے ہیں۔‘

برطانیہ کی تقریباً ساڑھے چھ کروڑ آبادی میں نسلی تارکین وطن کی تعداد 13 فیصد ہے۔ کرونا وائرس میں مبتلا 52 ہزار متاثرین میں ایک تہائی متاثرین تارکین وطن کی ہے۔

قومی طبی سروسز کے انٹینسیو کیر نیشنل آڈٹ اور ریسرچ سینٹر (Intensive Care National Audit  and Research Center) کی ایک  نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاہ فام اور ایشیائی تارکین وطن کو کرونا وائرس سے متاثر ہونے اور ہلاکت کا زیادہ خطرہ موجود ہے۔

برطانیہ میں اب تک کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے پانچ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت متاثرین میں 14 فیصد ایشیائی اور 14 فیصد سیاہ فام مریضوں کی تعداد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق اس کی بڑی وجہ غربت اور تنگ مکانوں میں ان کی رہائش ہے جبکہ سیاہ فاموں میں شراب اور تمباکو نوشی بتائی جاتی ہے۔ بیشتر ایشیائی اور افریقی گھروں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں جس سے ان کا وزن بڑھتا ہے اور یہ لوگ مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کرونا وائرس ان کے لیے جان لیوا بن جاتا ہے۔

تارکین وطن ڈاکٹروں کی معاشی یا معاشرتی حالات سازگار ہے مگر ان کے بارے میں یہ تشویش ضرور ہے کہ وہ وائرس میں مبتلا مریضوں کے رابطے میں آنے سے متاثر ہو رہے ہیں اور سبھی ڈاکٹروں کے پاس طبی سوٹ یا بچاؤ کا سازو سامان موجود نہیں ہے۔

ایک اور پاکستانی ڈاکٹر اس وقت ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان کے افراد خانہ کے مطابق انہیں کرونا وائرس کی علامت اس وقت ظاہر ہوئی جب وہ سرجری میں ایک مریض کا معائنہ کر رہے تھے جنہیں کووڈ 19 لاحق ہو گیا تھا لیکن انہیں خود اس کا علم نہیں تھا۔

کرونا وائرس نے اگرچہ انسانوں کو جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور کردیا ہے لیکن اس کی وجہ سے جذباتی وابستگی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کی بہترین مثالیں برطانیہ کے ہسپتالوں میں ملتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا