کیا وزیراعلیٰ بلوچستان کو منتخب نمائندوں پر اعتماد نہیں؟

کرونا وبا نے جہاں حکومتی مشینری کو مفلوج کردیا ہے، وہاں یہ سیاسی رہنماؤں کے لیے بھی ایک چیلنج اور امتحان ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال(ٹوئٹر)

بلوچستان میں کرونا (کورونا) وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات اور فیصلہ سازی کی غرض سے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی لیکن ایک سرکاری افسر کو کمیٹی کی سربراہی دینے کے فیصلے نے جمہوری اداروں کی افادیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل اس پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن چھ اپریل کو جاری ہوا، جس کے مطابق اس کے سربراہ چیف سیکرٹری بلوچستان ہیں۔

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کابینہ اور صوبائی اسمبلی کے ہوتے ہوئے کسی کمیٹی یا کمیشن کی ضرورت نہیں تھی، اگر صورت حال ناگزیر تھی تو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو ایسی کمیٹی بنانے کی بجائے صوبائی کابینہ کو تحلیل کردینا چاہیے تھا۔

معروف تجزیہ کار اور مصنف راحت ملک چیف سیکرٹری کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کو بیوروکریسی کی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف اقدام سمجھتے ہیں۔

'دنیا کی تاریخ میں اگر انتظامی افسران ہی بہتر ہوتے تو کبھی بھی ریاستیں اپنے اختیارات منتخب نمائندوں کو منتقل نہ کرتیں۔'

کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اراکین اسمبلی کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان میں جمہوری اور عوامی حکومت کا تصور پہلے بھی نہیں تھا، اس فیصلے نے سویلین حکومت کا جنازہ نکال دیا ہے۔

ادھر حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اصغر اچکزئی نے بھی برملا کہا کہ وہ اس کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے اور جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل بلوچستان کے صوبائی وزیر انجینیئر زمرک نے سیکرٹری صحت کو اس وجہ سے تھپڑ مار دیا تھا کہ انہوں نے صوبائی وزیر کو کرونا وبا کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل بتانے سے انکار کیا اور صوبائی وزیر کے مطابق سیکرٹری ان کے فون کا بھی جواب نہیں دے رہے تھے۔

حکومت نے پارلیمانی کمیٹی پر تنقید کے پیش نظر آٹھ اپریل کو سابقہ نوٹیفکیشن منسوخ کرکے نیا جاری کیا، جس میں کمیٹی کی سربراہی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو دیتے ہوئے چیف سیکرٹری کو کمیٹی کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔

راحت ملک کے مطابق: 'افسرشاہی نوآبادیاتی دور کی فرسودہ علامت ہے اور اس میں شریف النفس لوگ بھی وہی کرتے ہیں جس کا تقاضا ان سے ادارہ کرتا ہے۔ جمہوری اداروں میں برائیوں کے باوجود منتخب نمائندہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ کل اسے پھر عوام کے پاس جانا ہوگا۔'

دوسری جانب نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے کمیٹی کے قیام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس سے یہ واضح ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اسلام آباد کو اپنے تراشے ہوئے بتوں پر بھی بھروسہ نہیں۔'

راحت ملک مزید کہتے ہیں کہ 'پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی چیف سیکرٹری کو دے کر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے تسلیم کیا کہ وہ جمہوری باریکیوں سے ناآشنا ہیں۔ اگر جام کمال اس کمیٹی کی سربراہی پارلیمنٹ میں سے کسی کو دے دیتے اور بہترہوتا کہ اپوزیشن لیڈر کو سربراہ بنا دیتے تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہوتے اور عوام کے بہتر مفاد میں فیصلہ سازی میں بھی آسانی ہوتی۔'

جہاں پارلیمانی کمیٹی قیام کے بعد ہی متنازع بن گئی، وہیں دوسری جانب بلوچستان کے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے اس کی وضاحت اس طرح کی کہ  پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی چیف سیکرٹری کو اس لیے دی گئی تھی تاکہ ارکان کو بہتر رہنمائی مل سکے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کی فیصلہ سازی میں درپردہ قوتوں کا عمل دخل تو موجودہ ہے لیکن جام کمال نے نوٹیفکیشن فوری واپس لے کر درست فیصلہ کیا۔

شہزادہ ذوالفقار کے بقول: 'کسی بھی حکومت میں فیصلہ بہرحال وزرا ہی کرتے ہیں اور بیوروکریسی اس پر عمل کرتی ہے لیکن اس فیصلے نے یہ تاثر دیا کہ حکومت نے فیصلہ سازوں کو بیورو کریسی کی نگرانی میں دے دیا، جس پر ردعمل آیا اور حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔'

بلوچستان حکومت کو کرونا وبا کے شروع ہونے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تفتان سرحد پر ایران سے آنے والے زائرین کو رکھنے اور قرنطینہ میں ناقص انتظامات پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔

کرونا وبا نے جہاں حکومتی مشینری کو مفلوج کردیا ہے، وہاں یہ سیاسی رہنماؤں کے لیے بھی ایک چیلنج اور امتحان ہے کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ییں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان