اگر گاڑی کے وائپر ہوتے توچل نہ رہے ہوتے؟

چھکڑا نما بس سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے چوتھی مرتبہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تو ایک کمزور دل مسافر نے ڈرائیور سے پوچھا ’اُستاد جی، کیا گاڑی کے وائپر نہیں ہیں؟‘

کرونا وائرس کی طوفانی بارش میں ساری دنیا اپنے اپنے ’وائپر‘ چلا کر محتاط انداز میں اس موزی مرض سے بچ نکلنے کا رستہ تلاش کر رہی ہے (پکسابے)

اگرچہ زنگ آلود بس کے وائپر نہیں تھے مگر بڑی مونچھوں اور لال آنکھوں والے ڈرائیور کا اعتماد دیدنی تھا۔ مجال ہے جو اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی بریک سے عاری کھٹارے کی رفتار میں کمی کی ہو یا پریشانی کا ہلکا سا سایہ بھی اس کے چہرے پر نظر آیا ہو۔

طوفانی بارش اور ژالہ باری نے ونڈ سکرین سمیت اس چھکڑے کے چاروں اطراف کے شیشوں کو اندھا کر دیا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سامنے سے ٹریفک بھی آ رہی تھی مگر اُستاد لاری کو یوں بھگا رہا تھا، جیسے خالی رن وے پر جا رہا ہو۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہم مسافر تیزی سے کسی اندھے کنویں میں گِر رہے ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ڈرائیور نے اگلی سیٹ پر اپنے دائیں، بائیں چار عدد مسافر بھی پھنسا کر بٹھا رکھے تھے، جبکہ پانچواں ’گدی نشین‘ وہ خود تھا۔ وہ سب یک جان پانچ قالب نظر آ رہے تھے۔

یہ سرکسی منظر دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ گاڑی چلا کون رہا ہے، یعنی اس پر کنٹرول کس کا ہے؟ چھکڑا نما بس سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے چوتھی مرتبہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تو ایک کمزور دل مسافر نے ڈرائیور سے پوچھا ’اُستاد جی، کیا گاڑی کے وائپر نہیں ہیں؟‘

استاد نے قہقہ لگا کر کہا، ’بھولے بادشاہو! اگر ہوتے تو چل رہے ہوتے!‘

سوال کرنے والا شرم سے یوں پانی پانی ہو گیا جیسے بارش کے پانی سے بس کی سیٹیں اور فرش تر ہو چکے تھے۔

کرونا وائرس کی طوفانی بارش میں ساری دنیا اپنے اپنے ’وائپر‘ چلا کر محتاط انداز میں اس موزی مرض سے بچ نکلنے کا رستہ تلاش کر رہی ہے۔ کرہ ارض پر تادم تحریر اس وبا سے ایک لاکھ 34 ہزارسے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں مگر حکومتیں تمام تر اقتصادی مشکلات کے باوجود ہنگامی طور پر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ پر کمربستہ ہیں اور لاک ڈاؤن میں ان کو خوراک پہنچانے کے محفوظ طریقے بھی اپنائے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے ’کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے لیے اس وبا کے اثرات شدید ہوں گے مگر یہاں اس نازک موقع پر بھی ہر کوئی اس خطرے سے بے نیاز، مِل کر اس مصیبت کے آگے بند باندھنے کی بجائے اپنی اپنی روایتی دشنہ و جنجر کی زباں میں بغیر وائپر کے الفاظ کے کھٹارے دوڑائے جا رہا ہے۔

اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت کے پاس کرونا وائرس سے نمٹنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب کا فرمان ہے کہ اپوزیشن کے پاس کرونا کے خلاف کوئی پلان نہیں۔

بزدار صاحب نے تو وائپر چلائے بنا اور رستے کے کھڈے دیکھے بغیر یہ بیان بھی داغ دیا ہے کہ اپوزیشن وزیراعظم کی دانشمندانہ سوچ اور دوراندیشانہ فیصلوں سے خوفزدہ ہے۔ تیری آواز اور مدینے، مگر خود جناب وزیراعظم نے تو اگلے دن حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے دورے کے موقع پر فرمایا ہے کہ جو ملک ایٹم بم بنا سکتا ہے، وہ وینٹی لیٹرز کیوں نہیں بنا سکتا؟

جبکہ ایک مارننگ شو میں وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے ملک میں غیرتصدیق شدہ کٹس کی بھرمار ہو چکی ہے۔ (گویا یہ کام عوام نے کرنے ہیں۔)

حقیقت یہ ہے کہ مشیر صحت ظفر مرزا تو چیف جسٹس کے سوالات سے بے نقاب ہوئے، ورنہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس سرے سے کوئی ٹھوس پالیسی یا ماہر ٹیم ہی نہیں۔ سینیئرصحافی روؤف کلاسرا نے ارب ڈالر کا سوال اٹھایا ہے کہ جب ظفر مرزا کو 15 جنوری سے علم تھا کہ کرونا وائرس کا وجود موجود ہے تو 15 جنوری اور 15 مارچ کے دوران مشیر صحت کی کارکردگی کیا رہی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا وائرس پر حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ میڈیا کی ایک خبر کے مطابق لاک ڈاؤن سے وفاقی ٹیکس میں 1500 ارب کی کمی کا تخمینہ ہے، جبکہ وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 50 کے قریب ہے، جن میں وزیر، وزیر مملکت اور مشیر شامل ہیں۔

حکومت دنیا سے امداد مانگ رہی ہے مگروہ افسر شاہی، وزیراعظم ہاؤس، پریزیڈنٹ ہاؤس، وزارتوں اور بہت سے بےکاراداروں کے اخراجات اور اللے تللے بند کرنے پر تیار نہیں۔ ادھر ڈاکٹروں کے پاس گلوز ہیں، نہ ماسک اور نہ حفاظتی لباس، جس سے آئے روز ڈاکٹر خود بھی کرونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔

بقول سرکار اس نے احساس پروگرام کے تحت آٹھ ارب ڈالر سے غریبوں کے لیے ملک کے سب سے بڑے پیکج کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر اپنی پارٹی کے لوگوں کے ہاتھ میں یہ کام دینے کی بجائے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا جاتا تو وہ لوگ بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے کہ کون کون امداد کا اصل حقدار ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ 2001 کے بلدیاتی (پہلے ناظم نظام) میں جب ہم اپنی یونین کونسل سے منتخب ہوئے تو ایک سال گندم کی فصل اچھی نہ ہوئی اور قحط جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔

حکومت نے ہر یونین کونسل میں گندم کی بوریاں غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیں۔ ہم لوگ اپنی یونین کونسل کے دفتر میں بیٹھے حقدار لوگوں کی لسٹیں فائنل کر رہے تھے کہ اچانک گاؤں کے ایک ہر دلعزیزاور دیانت دار صاحب تشریف لائے۔

انہوں نے اپنی جیب سے چند سفید پوشوں کی ایک خفیہ لسٹ نکال کر دی اور بتایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں، تاہم یہ مر جائیں گے مگر سرعام امداد قبول نہیں کریں گے۔ ان صاحب نے درخواست کی کہ اگر ہو سکے تو رات کو خاموشی سے ان کے گھر گندم پہنچا دی جائے۔ مراد یہ ہے کہ یہ کام منصفانہ طور پر منتخب بلدیاتی نمائندے ہی کر سکتے تھے۔

اس نازک گھڑی میں بھی وفاق اورصوبوں میں عدم تعاون کارفرما رہا۔ پہلے وفاقی حکومت کہتی رہی کہ لاک ڈاؤن ختم کرنا صوبوں کام ہے۔ جب بھوک لوگوں کر سرچڑھی اور حتجاج کا خطرہ پیدا ہو گیا تو چند شعبوں میں لاک ڈاؤن ختم کیا گیا مگرعوام بھی کچھ کم نہیں۔ پہلے ہی دن تقریباً ہر کسی نے، چاہے اسے اجازت تھی یانہیں دکان کھول لی۔ اب ایساگھمسان کا رن پڑا کہ لگ رہا ہے کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خدانخوستہ اقوام متحدہ کے ادارے ’کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کا تحقیقاتی خدشہ درست ثابت ہو گا کہ پاکستان کے لیے اس وبا کے اثرات شدید ہوں گے۔

بہتر یہ تھا دیانت دار اور اچھی شہرت کے حامل لوگوں کے ذریعے گھر گھر رقم یا راشن پہنچایا جاتا۔ اگرغریبوں کو اکٹھا کر کے تصویریں بنوانے کے شوق میں یہ کارخیر انجام دیا گیا اوریہ وبا ایک مرتبہ زور پکڑ گئی تواس ملک میں عوام کو پوچھنے والابھی کوئی نہیں۔

کرونا وائرس کے پھیلنے کے سلسلے میں عوام بھی اتنے ہی فکرمند ہیں، جتنی ہماری حکومت۔ زیادہ لوگ تو اس وبا کو سرے ہی سے غیرسنجیدہ لے رہے ہیں اور میل ملاپ کے چلن میں کوئی تبدیلی نہیں لائے۔ مذہبی طبقہ کسی احتیاط کا قائل ہی نہیں۔ کئی لوگ دم درود اور تعویزات کو اس کا صحیح علاج سجھتے ہیں اور بہت سارے تو اس وبا کو مغربی پراپیگنڈا کہتے ہیں، جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔

حیرت ہے کہ کرونا وائرس نے دنیا کی حکومتوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں مگر ہماری سرکار بغیر کسی پلاننگ کے، اپنی لاری اس وبا کی طوفانی بارش میں بھی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بغیر وائپرز کے بے سمت سرپٹ دوڑائے جا رہی ہے اور لگ رہاہے کہ ہم تیزی سے کسی اندھےکنویں میں گررہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی سرکار سے پوچھ بیٹھے’ اُستادجی، کیا گاڑی کے وائپر نہیں ہیں ؟ توعین ممکمن ہے کہ فرنٹ سیٹ میں پھنس کا بیٹھا شیخ رشید جیسا زیرک وزیر کھراسا جواب دے کہ بھولے بادشاہو! اگر ہوتے تو چل رہے ہوتے‘ ان کی بلا جانے کہ

ٹھنڈے چولہوں کی تیز آگ یہاں
گھروں کے گھر جلاتی رہی ہے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ