نیا وائرس پرانی نحوستیں

جو ٹامک ٹوئیاں یہ نطام زلزلوں اور سیلابوں کے دنوں میں مار رہا تھا آج بھی وہی کر رہا ہے۔ جیسے یہ اپنی نااہلی اس وقت ثابت کر رہا تھا اب بھی کر رہا ہے۔ وبا بدلی ہے ہوا نہیں۔

ہم تو ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ نماز باجماعت پڑھنے کے بارے میں کیا پالیسی بنائیں۔  (اےایف پی)

جس عجلت سے وفاق اور پنجاب نے لاک ڈاؤن کو بیچ کورونا حملے کے نرم کر کے عوام کوگھروں سے باہر آنے کی سہولت مہیا کی ہے اس سے چند معاملات تو واضح جاتے ہیں۔

ایک یہ کہ ہمارے پاس دو ہفتوں سے زیادہ معاشی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی قدم چاہے کسی قدرتی آفت یا جنگ جیسی مصیبت کے ردعمل میں اٹھانا پڑے جس کے نتیجے میں کاروبار و حیات بری طرح متاثر ہو ہماری برداشت سے بڑا امتحان ہے۔

لہذا اب وہ صاحبان جو ہر طرح کی قربانی دینے یا ہر مصیبت کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے جیسے نعرے لگا کر عوام کے جذبات کو بےوجہ تاؤ دیتے رہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس ورد کو چھوڑ کر کوئی اور دھندا کریں۔ ہمیں پتا چل گیا ہے ہم کتنے پانی میں ہیں۔ ہماری معیشت اور عوام کی سکت وہ نہیں ہے جو وہ سمجھتے یا دوسروں کو سمجھاتے رہتے ہیں۔

دوسرا معاملہ جو اب کھل کر سامنے آ گیا ہے وہ یہ کہ ہمارے نظام میں کوئی ایسی صلاحیت نہیں کہ ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے کوئی واجبی سا بروقت انتظام کر سکے۔ کوئی سامان، کوئی اہتمام، کوئی ہدایت، کوئی فیصلہ سازی کی قوت ایسی نہیں ہے جس کو بروئے کار لا کر ہم بنیادی اقدامات اٹھاتے ہوئے مسئلہ کے سامنے وقتی بند باندھ سکیں۔

ہر نیا مسئلہ یہ کہہ کر عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے کہ چونکہ یہ نیا ہے لہذا ہم سے زیادہ موثر کارروائی یا کسی بھی قسم کی کارروائی کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ کورونا کی آمد کے ساتھ ہی اپنی بےبسی کی داستانیں ہر طرف سے بیان کرنے والا یہ حکومتی اور ریاستی نظام کبھی بھی تیار نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود ہر وقت ہمیں یہی باور کرواتا رہتا ہے کہ ہماری قیادت ہر گھڑی گھوڑے پر کاٹھی ڈالے لمبی دوڑ لگانے کا انتظام مکمل کیے ہوئے ہے۔

کورونا کے آتے ہی جس قسم کا ہڑبونگ پیدا ہوا اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ہم عام حالات میں رہنے کی دعا ہی کریں تو اچھا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی دن کسی کائیاں دشمن نے اپنے مذموم عزائم کے لیے کوئی تیکھا وار کر دیا تو نہ جانے یہاں پر کیا ہو گا۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم اس وقت کسی ایسی صلاحیت یا پالیسی کی دریافت کے بارے میں بات نہیں کر رہے جو بہت گہری، مشکل یا وسائل طلب قسم کی کاوش مانگتی ہو۔

مثلا ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمارے یہاں 14 دن میں آٹھ ہسپتال بن جائیں یا ہماری اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں ماسک یا ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے حفاظتی سامان بنانے لگ جائیں۔ نہ ہم کسی ایسی تحقیق کی امید کا حوالہ دے رہے ہیں جو اس خطرناک وبا کو تھم جانے پر مجبور کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے پاکستانیو، یہ سب کام تو چین، آ ایم ایف، اقوام متحدہ، بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی صحت، ہلال احمر وغیرہ نے کرنے ہیں۔ ہم تو بات کر رہے ہیں انتہائی بنیادی کاموں کی جیسے کابینہ کے اجلاس کو ایمرجنسی بنیادوں پر بامقصد انداز سے روزانہ منعقد کروانا۔ صوبوں کے درمیان مفاہمت پیدا کر کے قومی پالیسی کے لیے موافق ماحول بنانا۔ روزانہ مستند اور بااثر انداز سے معلومات کو ان افراد کے ذریعے عوام تک پہنچانا جن کو دیکھ کر لوگ چینل بدل کر کارٹون نیٹ ورک نہ دیکھنے لگ جایں۔ ڈاکٹروں پر ڈنڈے اور لاٹھیاں برسانے کی بجائے ان کے لیے روزانہ قومی شکریے کے اظہار کا بندوبست کرنا۔ صحافیوں کو جیل میں ڈالنے کی بجائے ان کے ذریعے احوال سلطنت کی معلومات لینا۔ یعنی اس قسم کے کام جن میں کوئی روپیہ ٹکا نہیں صرف ہوتا صرف بنیادی دانش اور ہنر سے کام چلایا جا سکتا ہے۔

ہم تو ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ نماز باجماعت پڑھنے کے بارے میں کیا پالیسی بنائیں۔ سماجی فاصلے برقرار رکھوانے والے روزانہ اخبارات اور ٹی وی میں بغیر ماسک اور فاصلے کے زندگی کے امور سرانجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف دفعہ 144 لگائی ہوتی ہے تو دوسری طرف لوگوں کو پیسے لینے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں تصویر کھینچوانے کے لیے اکٹھا کروایا جا رہا ہوتا ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں سے چندہ مانگنے  کے لیے گلا بھی پھاڑ رہے ہیں اور ان کو گھر واپس لانے کے لیے کرائے بھی دوگنے کر دیے ہیں۔ ہر کوئی اپنا کام کرنے کی بجائے ذاتی تشہیر میں مصروف ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دیتے پھر رہے ہیں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قرضوں کی ادائیگی و معطلی پر قوم کو اعتماد میں لے رہے ہوتے ہیں۔

کابینہ بھی ہے۔ قومی سلامتی کی کمیٹی بھی۔ قومی کوآرڈینیشن کمیٹی بھی اور قومی کمانڈ سینٹر بھی۔ مگر اصل میں ہر جگہ وہی لوگ آپس میں بیٹھ کر میٹنگ کرتے ہیں اور ایک ہی جیسی کئی پریس ریلیز جاری کر کے خوش ہوتے ہیں۔

اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ پچھلے ہفتے ایک سروے کے مطابق حکومت کی طرف سے عوام کو کورونا سے متعلق دیے گئے پیغامات سب سے کم سنے اور یاد رکھے گئے۔ سرکاری پیغامات سے کہیں زیادہ بین الاقوامی کمپنیوں کی بنائی ہوئی کیمپنیز معلومات کی رسائی میں کارآمد ثابت ہو رہی ہیں۔

جو سب سے خطرناک اور پریشان کن معاملہ کورونا نے کھول کر سامنے رکھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم نے عوام کو وباؤں، وحشت، دہشت اور زندگی کے ناگہانی واقعات سے بچانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔

پچھلے 15 سالوں میں اس ملک میں زلزلے و سیلابوں نے ملک گیر تباہی پھیلائی۔ پھر دہشت گردی دو دہاَئیوں سے جاری ہے۔ ہماری تقریبا ایک نسل کا ہر روز بدترین بحرانوں سے رقم ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے یہاں بنیادی سہولیات تو دور کی بات عوام کو محفوظ رکھنے سے متعلق سوچ اور پلاننگ کے اصول بھی مرتب نہیں ہوئے۔

2005 کے زلزلے کے دن سے لے کر آج تک ہم معلومات کی عوام تک ترسیل اور کُل ملکی ایمرجنسی فیصلہ سازی کا نظام واضح نہیں کر سکے۔ نہ ہمارے پاس عوام سے متعلق حتمی اعداد و شمار ہیں اور نہ ہمیں غریب اور نادار افراد تک امداد پہنچنے کے ذرائع کا علم ہے۔

ہاں ہمیں یہ ضرور پتہ ہے کہ عوام کی بپتا کو بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔ نیا قرضہ کیسے مانگنا ہے۔ پرانے قرضے موخر کروانے کے لیے کیا جتن کرنے ہیں۔ ہمیں اس کا بخوبی علم ہے کہ اپنی بے کسی اور شومئی قسمت کے چیک کو کیش کیسے کروانا ہے۔چندہ کیسے اکٹھا کرنا ہے۔ حالات کے مارے ہوئے عوام کے سامنے وسائل کی کمی کا قصہ کیسے بیان کرنا ہے۔

ان تمام شعبوں میں ہمارے نظام کے چلانے والے ماہر بھی ہیں اور حاضر بھی۔ لیکن بروقت تدبیر اور تحفظ خلقت  ایک ایسا چیلنج ہے جس کا ہماری ریاست اور حکومت (جس کسی کی بھی ہو) کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ہمارے زعما جو ہر وقت خود کو شیر کے شکاری کے طور پر پیش کرتے ہیں عوامی مسائل کے سامنے بھیگی بلی بن کر ادھر ادھر بھاگتے نظر آتے ہیں۔

جو ٹامک ٹوئیاں یہ نطام زلزلوں اور سیلابوں کے دنوں میں مار رہا تھا آج بھی وہی کر رہا ہے۔ جیسے یہ اپنی نااہلی اس وقت ثابت کر رہا تھا اب بھی کر رہا ہے۔ وبا بدلی ہے ہوا نہیں۔ وائرس نیا ہے لیکن نحوستیں وہی پرانی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ