لاک ڈاؤن میں مدد فراہم کرنے والا ریڈیو چینل

سوات یونیورسٹی کے کیمپس ریڈیو ایف ایم 100.4 پر علاقے کے مایہ ناز ڈاکٹرز عوام کے لیے ہر روز ٹیلی فون لائن پر دستیاب ہوتے ہیں اور مفت طبی مشورے دیتے ہیں۔

کرونا (کورونا) وائرس لاک ڈاؤن کے باعث سماجی دوری رکھنا ضروری ہے، ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہیں، کلینک جا نہیں سکتے تو ایسے میں ڈاکٹروں سے رابطہ کیسے کیا جائے۔

اس حوالے سے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پہلے ہی آن لائن کلینک کام کر ہے ہیں تاہم گھروں میں محصور لوگوں تک پیغام پہنچانے اور ساتھ ہی انہیں طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سوات یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک ریڈیو کلینک کا آغاز کیا ہے۔

کیمپس ریڈیو ایف ایم 100.4 کی نشریات صبح 11 بجے سے دوپہر ایک بجے تک ہوتی ہے۔

جہاں پر علاقے کے مایہ ناز ڈاکٹر عوام کے لیے ہر روز ٹیلی فون لائن پر دستیاب ہوتے ہیں اور مفت طبی امداد مہیا کرتے ہیں۔

کیمپس ریڈیو میں سوات کے ڈپٹی کمشنر تشریف لاتے ہیں اور اس مشکل گھڑی میں عوام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ ٹیلی فون کے ذریعے اور فیس بک لائیو کمنٹس کے ذریعے آنے والے عوام کے سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں۔

سوات یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جمال الدین کا کہنا ہے کہ ’ریڈیو ایک بہت ہی مؤثر میڈیم ہے اور بحران کے وقت دنیا کے طاقتور ممالک جیسے جرمنی، برطانیہ اور امریکہ میں ریڈیو کا استمعال کیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خصوصاً سوات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ سوات چونکہ ایک پہاڑی علاقہ ہے یہی وجہ ہے کہ عوام تک پیغام رسائی کا عمل صرف ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

جمال الدین کے مطابق: ’کیمپس ریڈیو کا اصل مقصد یہی ہے کہ لوگوں تک بر وقت معلومات پہنچائی جا سکیں۔‘

اس حوالے سے سوات یونیورسٹی کے رجسٹرار محبوب الرحمٰن نے کہا کہ وبا کے شروع ہوتے ہی ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ جس ریڈیو کو ہم تین ماہ بعد فعال کرنے والے تھے، ہم  نے اسے اس بحران کی وجہ سے عوام کی مدد کرنے کے لیے فوری طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس  این او سی ہے، پیمرا نے ہمیں اجازت دے دی تھی تو حالات کے پیش نظر یہ ایک ضروری اقدام تھا جو ہم نے اٹھایا اور امید کرتے ہیں کہ سارے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام تک ہم یہ سہولت فراہم کریں تاکہ وہ گھر بیٹھے طبی امداد حاصل کر سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی