ڈاکٹر جس نے ایک ماہ سے اپنی فیملی کو نہیں دیکھا

خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں بطور پروفیسر فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر ضیا وہ پہلے ڈاکٹر تھے جو مردان کے گاؤں منگا میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت کے بعد وہاں گئے اور لوگوں کے نمونے لیے۔

جب پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس سے پہلی موت ہوئی تو ڈاکٹر ضیا الحق وہ پہلے ڈاکٹر تھے جو اپنی ٹیم کے ہمراہ اس گاؤں پہنچے اور ایک ہی دن میں 95 لوگوں کے خون کے نمونے لیے۔

مردان کی یونین کونسل منگا کے اس گاؤں میں بڑے پیمانے پر کرونا وائرس سے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے پورے گاؤں کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔

تاہم ڈاکٹر ضیا الحق اور ان کے ہمراہ سات مزید ڈاکٹر فوراً اس گاؤں پہنچے تاکہ یہ جان سکیں کہ وائرس کتنے لوگوں میں پھیل چکا ہے۔

ڈاکٹر ضیا خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں بطور پروفیسر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پبلک ہیلتھ کے ڈین بھی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ پبلک ہیلتھ کا کام ہوتا ہے کہ وہ ریسرچ کرے، شماریات اور معلومات اکھٹی کرے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے سوچا کہ منگا گاؤں میں خود جاکر لوگوں سے خون کے نمونے لیے جائیں۔ ڈر اور خوف کے باوجود لوگوں کا بڑا تعاون رہا ہے۔ بچے بڑے بوڑھے سب خود آنا چاہ رہے تھے کہ ان کا ٹیسٹ کیا جائے اور ان کو بڑا اچھا لگا کہ ہم وہاں گئے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ خوف کے اس ماحول میں انہیں کام کرکے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’خطرہ بہت ہوتا ہے۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس کسی بھی وقت ہمیں بھی بہت آسانی سے لگ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کام کر رہے  ہیں اور کرتے رہیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آج کل ہم چار، پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سو رہے، کیونکہ کبھی ویڈیو کانفرنس پر باقی دنیا سے معلومات لے رہے ہوتے ہیں تو کبھی میڈیا اور دیگر حکام کو بریف کر رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ریسرچ کر رہے ہیں۔ روزانہ کا ڈیٹا شئیر کرتے ہیں، جب کہ کچھ ڈاکٹر مریضوں کی سکریننگ اور ٹیسٹ لینے میں مصروف ہیں۔‘

ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ ان مصروفیات میں وہ اپنے اہل خانہ کے لیے بالکل وقت نہیں نکل پا رہے ہیں۔

’میں نے اپنی بیوی بچوں کو سسرال بھجوایا ہوا ہے۔ میرا ایک 14 ماہ کا بیٹا ہے جس کا نام مصطفیٰ ہے۔ میں نے اس کو تقریباً ایک مہینے سے نہیں دیکھا۔ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کل ڈیوٹی کرنے کی ہمیں زیادہ تنخواہ مل رہی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کی توقع کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صرف ہم ڈاکٹر ہی نہیں بہت سے اور لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں۔ جن میں نرسیں، دوسرا عملہ، پولیس، انتظامیہ اور سیاستدان وغیرہ شامل ہیں کیونکہ ایک بہت بڑا المیہ ہمیں درپیش ہے، جس کا اب سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہے۔‘

عوام کے تجسس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر ضیا سے ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحبان جو دستانے، ماسک اور وائرس سے بچنے کے لیے خصوصی حفاظتی لباس پہنتے ہیں، اس کو تلف کیسے کیا جاتا ہے؟

جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ایک بھٹی ہوتی ہے جہاں اس کو جلا دیا جاتا ہے، تاہم خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور چھوٹے ہسپتالوں میں روزانہ ایک گاڑی لینے آتی ہے تاکہ ان اشیا کو جلایا جا سکے۔

خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں پورے خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں سے کرونا وائرس کے مشتبہ ٹیسٹ آتے ہیں، جن کی روزانہ اوسط تعداد 250 ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ٹیسٹ براہ راست نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) بھی جاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان