وہ زمانہ جب لوگ خود ہی کمپیوٹر تھے

پرانے وقتوں کی چند مزیدار کہانیاں جب نہ کمپویٹر تھا، نہ انٹرنیٹ مگر لوگوں کے حواس تیز اور یاد داشتیں گہری تھیں۔

پرانے زمانے میں لوگ جدید علوم اورسائنسی ایجادات کے بغیر، حالات اور اپنے تجربے کے مطابق زندگی کی گتھیاں سلجھاتے رہے ہیں(استاد اللہ بخش)

انفارمیشن ٹیکنا لوجی کے اِس دور میں نوجون نسل سوال کرتی ہے کہ ماضی میں جب ہمارے دیہات میں سڑکیں، موٹریں، بجلی، ٹیلی فون، سمارٹ فون، کمپیوٹراورانٹرنیٹ تو کجا، گھڑیاں اورریڈیو وغیرہ بھی نہیں تھے تو وہ لوگ روزمرہ کے امور کیسے سرانجام دیتے تھے؟

ہم چند پرانے واقعات کی مدد سے انہیں بتانے کی کوششش کرتے ہیں کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں زندگی کے مسائل کیسے حل کرتے تھے۔

تقسیم ہند سے قبل کی بات ہے، ہمارے گاؤں کے چوہدری حبیب خان ایک جہاندیدہ بزرگ تھے۔ اکثرسفرپیدل ہوتا تھا۔ اس دور میں مسافروں کا راستے میں کسی اجنبی کا مہمان بننا قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر اپنی گھوڑی اور اس کا بچھڑا پکڑے ایک اجنبی مہمان ان کے ڈیرے پر پہنچا۔

لسی کے ساتھ لنچ کرنے کے بعد اس نے آگے کے سفر کا ارادہ کیا تو میزبان نے اُسے نصیحت کی کہ ذرا احتیاط کرنا، اس کچے راستے پر چار میل کے فاصلے پر ایک کنواں ہے۔ تم اس سے پانی نکال کر پیو گے اور گھوڑی کا بچہ کنوئیں میں گر جائے گا۔

بالکل اسی طرح ہوا۔ مہمان واپس گھوڑی دوڑا کر آیا اور حبیب خان سے پوچھا کہ کیا آپ کوئی پہنچی ہوئی ہستی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، میں خود گھوڑے رکھتا ہوں اوران کی نفسیات سے آگاہ ہوں۔

تم جس راستے سے جا رہے تھے، اس میں اس کنوئیں سے پہلے کوئی آبادی نہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ پیاس سے تمہارا برا حال ہو گا اور تم کنواں دیکھ کر ضرور وہاں ڈول سے پانی نکال کر پیو گے۔ اب گھوڑے کے بچے کی فطرت ہے کہ وہ نچلا نہیں بیٹھ سکتا اور وہ پنگے لینے کاعادی ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کنوں کچا ہے، جس پر منڈیر نہیں بنائی گئی۔ مجھے یقین تھا کہ تم پیاس کی شدت سے پانی پینے میں مگن ہو جاؤ گے اور گھوڑی کا بچہ اپنے فطری تجسس سے مجبور ہوکر بار بار کنویں میں جھانکے گا اور پھسل کر کنوئیں میں گر جائے گا۔

نورپورتھل (خوشاب) کے رہائشی سابق جسٹس لاہورہائی کورٹ کاظم علی ملک بتاتے ہیں کہ ہمارے اور تمہارے گھرانوں کے درمیان میرے سکول کے دورسے پریت چلی آ رہی ہے۔ تب لوگ دوست یاروں سے ملنے جاتے تو چند دن قیام بھی کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1957 میرے بڑے بھائی قاسم علی خان (سابق تحصیل دار) چکوال کے تمہارے گاؤں کا لاریاں بدل بدل کر دو دن کا دور دراز کا سفر کر کے تمہارے بڑوں یعنی اپنے نوجوان دوستوں سے ملنے گئے۔

چند دن بعد عید الفطرآ گئی اور وہ گھر والوں سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ عید سے پہلے ہرحال میں گھر پہنچ جائیں گے۔ ان کے دوستوں ہمارے والد اور تایا وغیرہ نے ملک صاحب سے کہا کہ ’اس مرتبہ عید ہمارے ساتھ اِدھر ہی مناؤ، مِل کر پینگیں جھولیں گےاور نیزہ بازی اور کبڈی کھیلیں گے۔‘

مہمان پریشان ہو گئے مگر دوستوں کی محبت دیواربن کر کھڑی ہو گئی۔ گھر رابطہ کر کے بتانے کا تو سرے سے ذریعہ ہی کوئی نہیں تھا۔ عید سے ایک دو دن قبل تک تو ان کے گھر والے اعتماد سے ان کی راہ دیکھتے رہے مگر چاند رات آ گئی تو سب پریشان ہو گئے کہ اللہ نہ کرے کوئی حادثہ وغیرہ پیش آ گیا ہے۔

رات گئے جب ملک صاحب کی واپسی کی امیدیں دم توڑ گئیں تب ان کی جہان دیدہ ماں جی نے اپنے تجربے کو بروئے کار لا کر سب سے پُراعتماد لہجے میں کہا کہ ’خطرے کی کوئی بات نہیں، عید آ گئی ہے۔ دوستوں نے ملک کو مجبور کیا ہو گا کہ رُک جاؤ اور ملک قاسم دیرینہ محبت کی لاج رکھتے ہوئے عید کے لیے وہیں ٹھہر گیا ہے۔‘

عید کے چوتھے دن ملک قاسم اچانک اپنے گھر پہنچے اور ساراقصہ کہہ سنایا تو ماں جی کی فہم وتجربے پرسب کو یقین آ گیا۔

ہمارے قریبی گاؤں بھرپور کے معروف نعت خواں عبدالرزاق جامی کی جوانی میں ایک لڑکی بیاہ کر ہمارے گاؤں لائی گئی۔ اس کے نکاح کی تقریب میں عبدالرزاق جامی نے نعت پڑھی۔ خواتین دوسرے گھر پردے میں تھیں مگر سپیکر کے بغیر بھی نعت کی ہلکی سی آواز ان تک پہنچ رہی تھی۔

وقت کا پنچھی اپنی رفتار سے اڑتا رہا۔ عورت بوڑھی ہو گئی۔ اس کے بچے جوان اور صاحب اولاد بھی ہو گئے۔ گاؤں میں بجلی اور ٹی وی بھی آ گئے۔ ایک رات بڑھیا اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی کہ دوسرے کمرے میں ٹی وی پر کسی نے میاں محمد بخش کا کلام سنانا شروع کیا۔ بڑھیا نے چونک کر کہا، ’یہ جامی ہے، جس نے میری شادی کے دن نعت پڑھی تھی!‘

پوتوں نے جا کر دیکھا تو واقعی ٹی وی پر عبد الرزاق جامی کا نام لکھا ہوا تھا۔ یاد رہے اس خاتون کے کان درمیانی سالوں میں جامی کی آواز سننے سے محروم رہے تھے جبکہ دونوں نے ایک دوسرے کی شکلیں تو کبھی دیکھی ہی نہیں تھیں۔

ایک دلچسپ واقعہ موضع حطار(تحصیل چکوال) کا اونٹ پال کر روزی کمانے والا اللہ دتہ سناتا تھا۔ جنگل میں ایک کچی ڈھوک کے نشیب میں قدیمی راستہ تھا۔ وہاں سے اکثر لمبی قطاریں بنائے اونٹوں کے مال بردار قافلے گزرتے تھے۔ دوران سفر رات کو سب سے اگلا اونٹ سوار اونچی آوازمیں ماہیے کا ایک مصرع گاتا اورسب سے آخری شُتر سوار ماہیے کا اگلا مصرع پڑھتا۔ یوں قافلے والوں کو تسلی ہو جاتی کہ سفر خیریت سے جاری ہے اورکوئی بھی بچھڑا یا ڈاکوؤں کے ہتھے نہیں چڑھا۔

ایک رات ڈھوک والوں کے اونٹ کا بچہ رسی کھل جانے کی وجہ سے قافلے کے پیچھے چل پڑا۔ اگلے کئی دن تک ڈھوک برداروں کی ہر ممکن تلاش کے باوجود ٹوڈا (اونٹ کا بچہ) نہ مل سکا۔ ڈھولے ماہیے گاتے قافلے برابر گزرتے رہے، مالک ان سے پوچھتے رہے مگر اونٹ کا بچہ نہ مل سکا۔

14 سال بیت گئے۔ گرمیوں کی ایک چاندنی شب ڈھوک والے کھلی فضا میں سو رہے تھے کہ اسی نشیبی راستے سے گزرنے والے قافلے کے اگلے شتر سوار نے جونہی دور سے کسی ماہیے کا مصرع اٹھایا تو گھر کی بڑھیا چونک کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے بیٹوں کو جگایا اور کہا کہ ’یہ اسی آدمی کی آواز ہے، جس دن ہمارا ٹوڈا گم ہوا، یہی بندہ گاتا جا رہا تھا۔‘

انہوں نے جا کر قافلے کو روکا تو سالار قافلہ نے تسلیم کیا کہ اتنا عرصہ قبل اونٹ کا ایک بچہ ہمارے قافلے میں شامل ہو گیا تھا، جس کی ہمیں صبح خبر ہوئی مگر مالکوں کا پتہ نہ چل سکا تھا۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی ہر دور میں رواں رہی ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق لوگ جدید علوم اورسائنسی ایجادات کے بغیر، حالات اور اپنے تجربے کے مطابق زندگی کی گتھیاں سلجھاتے رہے ہیں۔

آج جدید انفارمیشن ٹیکنالونی کے طفیل ہمارے بچے لندن سے چلتے ہیں تو ہمیں پل پل کی خبر ہوتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں پہنچے ہیں جبکہ ماضی میں جب ان کا کوئی بزرگ دور دراز یا نزدیک کے سفر پر ہفتہ یا مہینہ بھر کے لیے روانہ ہوتا تھا تو اس کے واپس آنے تک کسی کو اس کے بارے میں اور اسے اپنے گھر والوں کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہوتی تھی کہ کون زندہ ہے اور کون دنیا سے گزر گیا۔

ناخواندگی، غربت اور وسائل کی کمی اپنی جگہ مگر گاڑیوں، جہازوں، مشینوں اورلاؤڈ سپیکروں کا بے ہنگم شور نہ ہونے کی وجہ سے آلودگی بھی نہیں تھی اور فضا بھی صاف اورخاموشی تھی۔ ان کا سفر اور ملنا بہت کم لوگوں سے ہوتا تھا، سو جو آواز وہ سن لیتے،ان کے ذہن پر نقش ہو جاتی۔

اوپر سے خواہشات اورضرورتیں محدود ہوں، زندگی میں پیسے کا عمل دخل برائے نام ہو تومسائل کم ہوتے ہیں اور زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، لہٰذا ضرورتاً ان کے حواس خمسہ تیز تھے۔ وہ راتوں میں راستے بھی تلاش کر لیتے تھے اور اندھیرے میں دور جاتے آدمی کو بھی پہچان لیتے تھے۔

ہمارے دادا بتاتے تھے کہ ڈھول کی بھی ایک زبان ہوتی تھی۔ میراثی سورج نکلنے سے پہلے کسی پہاڑی پر چڑھ کر مخصوص دھن میں ڈھول بجاتے اور اردگرد کے دیہات میں خبر ہو جاتی کہ فلاں فوت ہو گیا ہے۔

ہمارے 80 سالہ چچا مہدی خان کہتے ہیں کہ اُس وقت وسائل نہیں تھے مگر سکون بہت تھا، اب سہولتیں تو بہت ہیں مگر سکون نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس جیسی کسی وبا سے لوگ چپ چاپ مرنا شروع کر دیتے تھے، مگراب موت سے زیادہ میڈیا نے ڈرا ڈرا کر نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔

دوسرے وہ خوش نصیب اس نعمت سے بھی بہرہ مند تھے کہ کوئی رویت ہلال کمیٹی نہیں تھی، سو اگرمغرب کے بعد چاند نظرآ جاتا تو وہ لوگ اپنے محدود وسائل میں رہ کر خوشیوں بھری بھرپورعید مناتے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ