باپ کی کلہاڑی اور عوامی تنقید کی شکار خواجہ سرا کے لیے سکالر شپ

ڈولفن ایان کی کہانی ان ٹرانسجینڈرز سے مختلف نہیں ہے جنہیں گھر والے دنیا والوں کے طعنوں کے خوف سے پرایا کر دیتے ہیں، تاہم جو بات ایان کو دوسرے کئی خواجہ سراؤں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کی تعلیمی استعداد ہے۔

21 سالہ ڈولفن ایان اب پاکستان کے جس کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنا چاہیں، ان کی فیس کا خرچہ بیت المال اٹھائے گا۔ (تصاویر: سوشل میڈیا)

گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر عوامی تنقید کی شکار خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ایان عرف ڈولفن کے لیے ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم کی کوششوں سے پاکستان بیت المال نے وظیفہ مقرر کردیا ہے۔

21 سالہ ڈولفن ایان اب پاکستان کے جس کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنا چاہیں، ان کی فیس کا خرچہ بیت المال اٹھائے گا۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے معروف سماجی کارکن قمر نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایان کو چونکہ آگے پڑھنے کا بہت شوق ہے لہذا ان کے ادارے 'بلیو وینز' کی کوششوں سے بیت المال پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر عون عباس بپی نے ان کے لیے سکالرشپ منظور کرلی ہے۔

ڈولفن ایان گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر مختلف حوالوں سے زیر بحث ہیں۔ ایک طرف جہاں عوام میں ان کی تعلیمی استعداد کی باتیں ہو رہی ہیں، وہیں کچھ لوگ ان پر یہ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ وہ یہ سارا واویلا کینیڈا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہیں۔

تاہم ڈولفن ایان نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اس کا جواب ان الفاظ میں دیا کہ 'اگر وہ چاہیں تو کسی بھی ملک میں جانا ان کے لیے کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بہت سارے مغربی ممالک انہیں بخوشی پناہ کے ساتھ اپنی شہریت بھی دے دیں گے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قمر نسیم نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے کئی خواجہ سرا دوسرے ممالک میں مقیم ہوگئے ہیں۔ خود سوات سے تعلق رکھنے والی ان کے ادارے کی نائب صدر، جو ایک خواجہ سرا ہیں، نیدر لینڈ میں پناہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: 'یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ کچھ لوگ اسائلم کو ایک جرم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پناہ لینا بھی ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنا یا کوئی اور جرم نہیں ہے۔ امیگریشن کی دنیا میں یہ ایک قانونی اصطلاح ہے، لہذا جن لوگوں کو لگتا ہے کہ انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے یا کسی بھی طرح سے وہ پرسکون محسوس نہ کر رہے ہوں، وہ کسی دوسرے ملک میں جاکر پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔'

قمر نسیم نے بتایا کہ ان کا ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ ایان کو اقوام متحدہ کے کسی ادارے میں ملازمت بھی دلوا دی جائے تاکہ وہ مالی طور پر خود مختارہو جائیں۔

پشاور کی ایک اور سماجی کارکن میمونہ نور کا کہنا ہے کہ تعلیم کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ یہ مصیبت کے وقت بہت کام آتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: 'اگر خواجہ سرا کسی طرح سے پڑھ لکھ جائیں تو ان کی زندگی سماجی اداروں کی کوششوں سے سہل ہو سکتی ہے۔ اس طرح ان کے پاس آپشنز زیادہ ہوں گے۔ ایسا کوئی پروگرام حکومتی سطح پر بھی شروع کیا جا سکتا ہے کہ جن گھروں میں ٹرانسجینڈر بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی کفالت اور رہنے کا انتظام حکومت کرے۔ اس طرح یہ بچے پڑھ لکھ کر بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔'

ایان کی کہانی

ڈولفن ایان کی کہانی ان ٹرانسجینڈرز سے مختلف نہیں ہے، جنہیں گھر والے دنیا والوں کے طعنوں کے خوف سے پرایا کر دیتے ہیں۔ پھر ان کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ تاہم جو بات انہیں دوسرے کئی خواجہ سراؤں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کی تعلیمی استعداد ہے جس کا وہ خود بھی ذکر کرتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کوہاٹ کے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے ایسوسی ایٹ انجینیئرنگ میں ٹاپ کیا ہے۔ جس کے بعد انہوں نے سکالرشپ حاصل کرکے سائپرس میں بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ وطن واپس آکر ایان نے کالج میں داخلہ لینا چاہا لیکن تب والد کی جانب سے اس معاملے پر تعاون بالکل ختم ہو کر رہ گیا تھا۔

ایان کا کہنا ہے کہ وہ جہاں بھی نوکری کی غرض سے گئیں، انہیں ہوس بھری نظروں اور جسمانی تعلقات قائم کرنے کی شرط پر آفرز نے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے بتایا: 'میرے والد ایک ٹیوب ویل آپریٹر ہیں۔ مجھے اندازہ تھا کہ اب وہ میرے خرچے مزید برداشت نہیں کرسکتے، لیکن مجھے ایڈورڈز کالج میں داخلے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ ایک دن میں نے ایک راہ چلتی شی میل سے مدد مانگی تو انہوں نے پیسے کمانے کے دو راستے تجویز کیے۔ انہوں نے کہا کہ یا تو میں اپنا جسم بیچوں اور یا پھر پارٹیوں میں جاکر ناچوں۔ میں نے دوسرا راستہ یعنی ناچنا بہتر سمجھا۔ یہ سوچ کر کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور میری مالی ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی۔'

'اس طرح میں نے تقریباً 41 ہزار روپے جمع کرکے ایڈورڈز کالج میں داخلہ لیا لیکن صرف تین مہینوں کے بعد میں معاشی مسائل اور لوگوں کے رویوں کی وجہ سے تعلیم  جاری نہ رکھ پائی، جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔'

ایان کے مطابق انہوں نے مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے پارٹیوں میں رقص کرنا شروع کردیا (تصویر: سوشل میڈیا)


انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں ایان نے بتایا کہ معاشی حالات اور اپنوں کی بے رخی نے انہیں گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔

'میرے والد  مجھے بات بے بات ڈانٹنے لگے۔ اسی ڈر کی وجہ سے میں ان کو نہیں بتا سکتی تھی  کہ میرے ساتھ کالج میں کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ابو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ مسئلہ تم میں ہے اس لیے ایسا ہوا۔ یہاں تک کہ ایک رات انہوں نے میری زندگی ختم کرنے کے لیے مجھ پر کلہاڑی سے وار کیے۔ میری خوش قسمتی یا بد قسمتی سمجھیے کہ میں بچ گئی۔'

ایان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے گھر والے انہیں اپنا لیتے تو انہیں یوں در بدر نہ پھرنا پڑتا۔

'مجھے پڑھائی میں بچپن ہی سے بہت دلچسپی تھی۔ سوچا تھا بہت زیادہ پڑھ لکھ کر والدین کا سہارا بنوں گی۔ کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ آگے اتنی بھیانک زندگی ہوگی کہ میری اپنی سگی ماں بھی مجھ سے منہ موڑ لے گی۔'

ڈولفن ایان کا کہنا ہے کہ اگر آج بھی ان کی فیملی انہیں اپنا لے تو وہ خوشی خوشی سب کچھ چھوڑ کر فوراً گھر چلی جائیں گی۔

سماجی کارکن قمر نسیم کے مطابق جن خواجہ سراؤں کو اپنوں نے دھتکارا ہوتا ہے وہ انہیں دوبارہ گھر میں رکھنے پر کبھی راضی نہیں ہوتے اور یہ سب سماجی دباؤ کے تحت ہوتا ہے۔ اگر وہ واپس گھر چلے بھی جائیں تو یہ ایک عارضی کوشش ثابت ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ شناخت کا ہے جس سے انکار کیا جارہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان