ڈاکٹر یا انجینیئر؟ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

اگرکوئی مصور بننا چاہتا ہے اور اس کے ہاتھ کینوس پررنگوں سے بھرا برش پھیرنا چاہ رہے ہیں تو ہم اس کے ہاتھوں میں سٹیتھوسکوپ دے کرملک کو ایک اچھے مصور سے محروم کر دیتے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنی مرضی کے شعبے میں نہیں جا  پاتی (اے ایف پی)

کافی دنوں بعد وٹس ایپ پر جولیا کا پیغام آیا اور انہوں نے بتایا کہ اٹلی کے لاک ڈاؤن کے فیز ٹو میں سفر کی اجازت ملنے کے بعد وہ کیتی شہر سے اپنے گھر جا چکی ہیں اور فی الحال مختلف جامعات کے لیے پی ایچ ڈی کی درخواستیں جمع کروانے اور انٹرویو کی تیاری میں مصروف ہیں۔

جولیا سے میری ملاقات فروری میں پروفیسر فسولو کی طرف سے منعقد کیے گئے کارنیول میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ پروفیسر کی لیب میں انٹرن شپ کر رہی تھیں۔

میں نے ان سے جامعات کے نام پوچھے جس میں وہ داخلہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ جولیا نے ایک مکمل لسٹ بھیج دی جس میں مختلف جامعات، ان کے شعبے اور پروگرام جہاں داخلہ لینا ہے، سب درج تھا۔ ہر جامعہ کو انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چنا تھا اور اب وہ اپنا وژن وسیع کرنے کے لیے کیتی کے علاوہ کسی اور جامعہ میں داخلے کی خواہشمند ہیں اور اس کے لیے مکمل روڈ میپ تیار ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ اٹلی کے طالب علم اپنے کیریئر کے حوالے سے انتہائی فوکسڈ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا اور کیوں کرنا ہے۔ لیب میں ایما نویلا ہیں جو نفسیات پڑھنا چاہتی ہیں اور بچوں کی نفسیات میں سپیشلائزیشن کی خواہشمند ہیں۔ ایڈولفو انسانی نفسیات اور تخلیقی فکر پر تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں اور لینو ماحولیاتی تبدیلی کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں۔

یہ تمام طالب علم اپنے آنے والے دس سالوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بیٹھے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ انہیں کس شعبے میں جانا ہے، اس کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں۔ کیریئر کا سکوپ کیسا ہے، نوکری کے لیے کس شہر کا انتخاب کرنا ہے، ملک سے باہر جانا ہے، پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کرنی ہے اور ان سب کاموں کے لیے انہیں کتنا وقت درکار ہو گا۔ ان کے ذہن میں ایک خاکہ ہے جس میں یہ سب درج ہے اور میرے یہ سبھی ساتھی اپنے فیصلے میں خود اعتماد ہیں۔ ان کے چہروں پر اطمینان ہے کیونکہ انہوں نے اپنے تعلیمی کیریئر کا انتخاب خود کیا ہے اور اس میں خوش ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں مجھے پاکستان میں کالج کی ایک ساتھی یاد آ رہی ہیں۔ کالج میں انجینیئرنگ اور میڈیکل کے شعبے ایک دوسرے سے قریب تھے۔ جب ہم کلاس لے کر وہاں سے نکلتے ہوئے میڈیکل کی لیب کے باہر سے گزرتے تو سعدیہ بڑی حسرت سے طالبات کو تجربہ کرتے ہوئے دیکھتی اور یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ لیب دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک آتی تھی اور اس دیدار سے اس کا جی کبھی نہیں بھرا۔

ایک دن میں نے پوچھا کہ جب اتنا ہی شوق تھا تو انجینیئرنگ میں داخلہ کیوں لیا، میڈیکل میں لینا چاہیے تھا۔ سعدیہ نے بتایا کہ امی ابو چونکہ ڈاکٹر ہیں اور خاندان میں بھی کئی ڈاکٹرپہلے سے موجود ہیں، اس لیے اب ہمیں زبردستی انجینیئرنگ میں داخلہ دلوایا گیا ہے تاکہ اگلی کھیپ انجینیئروں کی تیار ہو۔ میرے لیے یہ انتہائی حیران کن تھا کیونکہ مجھے اپنے والدین کی طرف سے اس قسم کے دباؤ کا کبھی سامنا نہیں رہا۔ ہمارے لیے کیریئر کے تمام آپشن کھلے تھے۔ جو چاہو کرو۔ اس لیے حیرت ہوئی کہ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے جو چیز پڑھنے میں مجھے دلچسپی ہی نہیں ہے، پوری زندگی اس میں گزار دوں۔

یہ محض پہلا جھٹکا تھا، پھر اس کی عادت پڑ گئی۔ سات سال کراچی کی ایک سرکاری جامعہ میں درس و تدریس کے دوران ایسے کئی طالب علم ٹکرائے۔ پہلے سمسٹر کی کلاس لیتے ہوئے جب طالب علموں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے یہ شعبہ کیوں منتخب کیا تو ان میں آدھے سے زیادہ والدین اور بہن بھائیوں کے دباؤ یا دوستوں کے کہنے کی وجہ سے آئے ہوتے ہیں اور جو چند باقی رہ جاتے ہیں وہ بھی نہیں جانتے کہ ڈگری کے بعد انہیں کیا کام کرنا ہے اور اس مخصوص ڈگری کے بعد وہ کن کن شعبوں میں نمایاں طور پر اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ان کا مستقبل ایک دائرے کی شکل میں خلا میں گھوم رہا ہوتا ہے جس کا کوئی سرا ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی ایک اہم وجہ کیریئر کاؤنسلنگ نام کی کسی چیز کا نہ ہونا بھی ہے۔

 یہ طالب علم جامعہ کی چار سالہ ڈگری بے یقینی میں گزار دیتے ہیں اور گریجویشن کے آخری سمسٹر میں ان کے چہرے پر اطمینان کے بجائے خوف اورمایوسی کے سائے ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جانا کہیں اور تھا، راستہ کوئی اور اختیار کر لیا۔ جب سمجھ آتی ہے، زندگی کے کئی اہم سال گنوا چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے آدھے سے زیادہ عوام والدین کی ادھوری امنگوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ کچھ بننا چاہتے تھے اور نہیں بن پائے لہٰذا اب بچوں کوان کا یہ خواب پورا کرنا ہے۔

ہم اپنے ملک کی 60 فیصد سے زائد نوجوان آبادی پر فخر کرتے ہیں مگر ان نوجوانوں کی اکثریت کے پاس کوئی سمت نہیں۔ اگر کوئی اپنی سمت جانتا بھی ہے تو گھر والے سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں اور پھر یہ معاشرہ، جہاں کامیابی کے لیے چند شعبے مخصوص کر لیے گئے ہیں۔ پہلے ڈاکٹر اور انجینیئر تھے، اب کمپیوٹر سائنس اور بزنس ایڈمنسٹریشن۔

ہر جامعہ میں ہر سال کئی طالب علم ان مخصوص شعبوں کا حصہ بنتے ہیں اور پھر جب ڈگری حاصل کرنے کے بعد مارکیٹ میں جاتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کئی جامعات کے طالب علم قطار میں لگے ہیں، اتنی تو نوکریاں نہیں جتنے گریجویٹس ہیں۔

اگر سب نے ان چار پانچ شعبوں میں ہی جانا ہے تو پھر باقی ملک کون چلائے گا۔ آرٹسٹ کون بنے گا، موسیقی کی دھنیں کون چھیڑے گا، آثار قدیمہ سے ماضی کو کون کھوج نکالے گا، فلسفہ کون سنائے گا، شاعری، لٹریچر کی شناسائی کون دے گا، نیچرل سائنس میں کارنامے کون انجام دے گا؟

اگرکوئی مصور بننا چاہتا ہے اور اس کے ہاتھ کینوس پر رنگوں سے بھرا برش پھیرنا چاہ رہے ہیں تو ہم اس کے ہاتھوں میں سٹیتھوسکوپ دے کر ملک کو ایک اچھے مصور سے محروم کر دیتے ہیں اور اس کی جگہ ایک مایوس اور غیر مطمئن ڈاکٹر دے کر خوش ہوتے ہیں۔

 یا تو انہیں اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ خود کرنے دیں، یا پھر اس نوجوان آبادی پر فخر کرنا چھوڑ دیں کہ یہ ملک کی قسمت بدلیں گے کیونکہ ہماری ہر آنے والی نسل پچھلی نسل کی محرومیوں اور خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہے۔


نوشین حسین کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ اٹلی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس