’کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے' اس نعرے نے کام خراب کر دیا

’کرونا سے ڈرنا نہیں۔‘ ہماری قوم نے اس مشورے کو یوں عملی جامہ پہنایا کہ شاید ہی تاریخ میں کسی نے کسی نعرے پر عمل کیا ہو۔

(اے ایف پی)

’کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے۔‘ خدا جانے یہ نعرہ کس ذہن کی اختراع تھا۔ پاکستان میں فروری کے وسط سے آخری دنوں میں جب کرونا وائرس کے کیس رپورٹ ہونا شروع ہوئے تو یہ نعرہ میں نے وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے سنا تھا۔

نعرہ جس نے بھی سوچا، اس خطرناک نعرے کے اثرات پچھلے دو دنوں میں کھل کر سامنے آئے ہیں۔

میں نے لفظ خطرناک سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے اور اس کی توجیح میں کچھ دیر بعد پیش کروں گا۔

یہاں میں الیکٹرانک میڈیا کو بھی داد دوں گا کہ اس نے یہ نعرہ دن میں درجنوں مرتبہ ہمارے دماغوں پر ایسا برسایا کہ نہ پوچھیں۔

بلکہ کچھ نیوز چینلوں نے حسب عادت اپنے واٹس ایپ نمبر دیے کہ بچے اور ٹی وی نظر آنے کے شوقین افراد اس نعرے کی وڈیو بنا کر بھیجیں، جسے ہر بلیٹن میں دکھا دکھا کرہمارے دماغ آدھ موئے کر دیے گئے۔

یہ نعرہ کیوں خطرناک ہے؟ اس نعرے کے دو حصے ہیں۔ ایک ’کرونا سے ڈرنا نہیں۔‘ میں یہاں ہماری قوم کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ اس نے نعرے کے اس حصے پر جس طرح عمل کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب کرونا سے ڈرنا ہی نہیں ہے تو پھر سماجی دوری کیا چیزہے؟ اور پھر ایس او پیز کیا ہوتے ہیں؟

یہ جملہ سن سن کر لوگوں کے لاشعور میں بیٹھ گیا کہ کرونا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد اس نعرے پر مکمل عمل درآمد ہر بازار میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اب اس نعرے کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ ’لڑنا ہے۔‘ ہمیں ماس کمیونیکیشن میں پڑھایا گیا تھا کہ ٹارگٹ آڈیئنس کو ذہن میں رکھ کر نعرے اور سلوگن بنائیں تاکہ وہ آپ کے پیغام کو درست انداز میں سمجھ سکیں۔

 اب جس نے بھی یہ نعرہ تخلیق کیا، پتہ نہیں اس کے دماغ میں اس قوم کا کیا حسین تصور تھا کہ پاکستانی عوام پڑھی لکھی ہے، با شعور اور وہ اس نعرے کو اسی طرح قبول کرے گی جس طرح لکھنے والے نے سوچا۔ لیکن ایک ان پڑھ یا پڑھے  لکھے گنوار شخص کے ذہن سے دیکھیں تو وہ کرونا سے کیسے لڑ سکتا ہے؟ ایک چیز نظر ہی نہیں آتی تو اس سے لڑنا کیا؟

پچھلے دو مہینوں سے میڈیا کے ذریعے اس وائرس کے بارے میں اتنی آگاہی پھیلائی جا چکی ہے لیکن نتیجہ صفر ہے۔

گذشتہ دو دنوں میں بازاروں میں بے انتہا رش دیکھنے کے بعد ایک حکومتی وزیر ٹاک شو میں یہ آئیڈیا دے رہے تھے کہ بازاروں میں بڑے بڑے بینروں اور بل بورڈوں کے ذریعے عوام کو آگاہی دینی چاہیے۔

پتہ نہیں ہم کب حقیقت تسلیم کریں گے؟ کیا پچھلے دو مہینوں میں کم آ گاہی دی گئی تھی جو کسر بل بورڈ اور بینر سے پوری کرنا ہے؟

ہم اس بات کو تسلیم کر لیں تو بہتر ہے کہ ہم پاکستانی منظم قوم نہیں، ہمیں دوسروں کی تو کیا اپنی بھی پروا نہیں۔ پڑھ لکھ کر بھی ہمارا ذہن ماؤف ہے۔

میں نے کئی لوگوں سے سنا ہے اور یقین مانیں ان میں اکثر پڑھے لکھے لوگ تھے، جو کرونا وائرس کو تسلیم ہی نہیں کر رہے، جو مان ہی نہیں رہے کہ یہ وائرس موجود ہے۔ان کے ذہنوں میں سازشی نظریات اس حد تک راسخ ہیں کہ وہ کرونا وائرس کو اسرائیل، امریکہ وغیرہ کی سازش قرار دے رہے ہیں۔

اس مسئلے کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل ہے۔ یہ سازشی نظریہ تو کئی دہائیوں سے ہمارے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ ہم بچپن سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے پیچھے غیر ملکی سازشی ہاتھ ڈھونٹتے آئےہیں تو اس مرتبہ بھی ایسا ہونا کچھ اچھنبے کی بات نہیں۔ جو قوم اپنے ہر مسئلے کے پیچھے امریکی یا اسرائیلی ہاتھ دیکھتی ہو وہ کب اپنے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہو سکتی ہے؟

مجھے یہاں کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ ہمارے علما نے اس کرونا بحران میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ یہ ایسا موقع تھا جب مساجد سے نمازیوں اور دیگر لوگوں کو پیغام جاتا کہ وہ احتیاط کریں، لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔

ہمارے گھر میں اطراف کی چھ سے سات مساجد سے اذانوں کی آواز آتی ہے لیکن پچھلے دو مہینوں میں ایک مرتبہ بھی مجھے مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے لوگوں کو احتیاط کی تلقین سنائی نہیں دی۔

ہمارے معاشرے میں امام مسجد اور علما کی بے حد عزت کی جاتی ہے اور انہیں غلط تصور کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ان کے کہے کو اہمیت دیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام مساجد اس موضوع پر لوگوں کو سمجھاتے۔

پاکستان کی ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مساجد کا معاشرے میں انتہائی اہم کردار ہے اور ان مساجد کے باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں دی جا سکتی جو حکومت کی بات سننے اور ماننے سے انکار کریں بلکہ مزاحمت کی راہ اپنائیں۔

اس بحران سے نکلنے کے بعد حکومت کو چاہیے کہ وہ مساجد کے منبر پر صرف انہیں لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت دے جو آج موجودہ زمانے کے حقائق اور چیلنجوں سے آگاہ ہوں، جو 'ڈینائل موڈ' میں نہ ہوں اور بات بات میں امریکہ، اسرائیل کے رٹے نہ لگاتے ہوں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی اور وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور وفاقی وزیر اسد عمر کے دو مختلف ٹی وی شوز میں گفتگو سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کی ’حرکتیں‘ دیکھنے کے بعد دل برادشتہ ہو کر یہ بحران اللہ کے حوالے کرنے کا سوچ لیا ہے۔ دونوں وزرا کے بیانات سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ’ہرڈ امیونیٹی‘ کے راستے پر جا رہی ہے، ان کا خیال ہے کہ جو نقصان ہونا ہے وہ ایک ہی دفعہ ہو جائے تاکہ آئندہ معاملات ٹھیک سے چل سکیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ ہمارے حکمرانوں کی اپنے ’باشعور‘ عوام کی حقیقت معلوم ہے۔

حکومت نے کاروبار بالخصوص بازار کھولنے کے لیے ایس او پیز پر زور دیا تھا اور تاجر بھی بار بار کہہ رہے تھے کہ ایس او پیز بنا دیں تا کہ ہم کاروبار کھول لیں۔ لیکن اندر سے سب جانتے تھے کہ یہ ایس او پیز صرف کاغذ کے ٹکڑے ہوں گے جن پر کسی نے عمل نہیں کرنا اور اس ہفتے مارکیٹیں کھلنے پر یہ صاف ظاہر ہو گیا۔

مجھے بازار کھلنے پر عوام کی بھیڑ دیکھ کر ایسا لگا جیسے یہ ہماری زندگیوں کی پہلی اور آخری عید ہو گی۔

عید پہلے بھی آتی رہی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ لوگ اس کرونا بحران کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ احتیاط سے کام لیتے اور بازاروں کا رخ نہ کرتے۔

اگر ایک عید پر پرانی عید کے کپڑے، جوتے، چوڑیاں وغیرہ پہن لیں گے تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ اگلی عید پر یہ کسر نکال لیتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب تاجروں اور حکومتوں کے درمیان دکانیں، شاپنگ سینٹرز وغیرہ کھولنے کے لیے نام نہاد ایس او پیز طے ہو رہے تھے تو میں سمجھ رہا تھا کہ دکانیں کھل بھی گئیں تو عوام بڑی تعداد میں عید کی شاپنگ کے لیے نہیں نکلے گی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یا تو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں یا پھر انہیں تنخواہیں نہیں ملیں۔ ایسے میں لوگ کیوں دل و جان سے شاپنگ کرنے نکلیں گے۔

تاہم اس ہفتے جب بازار کھلے اور عوام کا سمندر دکانوں پر امڈ آیا تو میرا خیال غلط ثابت ہوا اور میں چشم تصور میں وزیر اعظم عمران خان کو بھی ٹی وی سکرینز پر رش کی فوٹیج دیکھ کر ہکا بکا دیکھ رہا ہوں۔

وہ ہمارے عوام کی بے روزگاری اور تنخواہیں نہ ملنے کے غم میں ہلکان ہو رہے تھے لیکن یہاں تو عوام نے بازاروں کا ایسا رخ کیا کہ جیسے پیسہ ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

میرا وزیر اعظم کو مشورہ ہے کہ بلا وجہ عوام کے غم میں ہلکان نہ ہوا کریں۔ ٹھنڈ پروگرام رکھیں کیونکہ عوام نے بھی کرونا بحران پر ٹھنڈ پروگرام ہی رکھا ہوا ہے۔

آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ عوام آپ کے نعرے ’کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘ پر من و عن عمل کر ر ہی ہے۔ چلیں مکمل نعرے پر نہ سہی، پہلے حصے پر تو کر ہی رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ