کرونا وائرس: سعودی عرب کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

اس مہلک وبا سے نمٹنے کے لیے مربوط عالمی ردعمل میں جی 20 کے صدر کی حیثیت سے سعودی عرب کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز 19 مارچ 2020 کو ٹی وی پر قوم سے کرونا کی صورت حال پر خطاب کر رہے ہیں جس میں انہوں نے ’مشکل جنگ‘ کا عندیہ دیا تھا (اے ایف پی)

سعودی عرب نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ 2020 میں اپنی گروپ 20 کی صدارت کو ترقی اور سفارت کاری کے لیے استعمال کرے گا لیکن اب وہ تبدیل شدہ صورت حال میں کرونا وائرس کی زخم خوردہ دنیا پر مرہم رکھنے میں زیادہ بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔

جب میں نے 30 جنوری کو ریاض میں جی 20 ڈومیسٹک کیپٹل مارکیٹس ڈویلپمنٹ کانفرنس میں شرکت کی تو اس وقت نئے سال کا اچھا آغاز ہوا تھا۔ سعودی عرب اپنی قیادت کو بروئے کار لاتے ہوئے مضبوط معاشی منڈیوں اور ایکو نظام کی تشکیل کے لیے پرامید تھا۔ سعودی حکام سرمائے کی مارکیٹوں کی اہمیت سے آگاہ تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کے ذریعے ہی سرمائے تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

سعودی حکام 2020 کو مملکت کے لیے ایک کامیاب سال بنانا چاہتے ہیں۔ اس دوران میں سعودی کیپٹل مارکیٹ میں 76 ارب ریال شامل ہوئے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو800 سے زیادہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ یہ تعداد 2015 میں جاری کردہ 259 لائسنسوں سے کہیں زیادہ ہے۔

سعودی کیپٹل مارکیٹس اتھارٹی (سی ایم اے) کے چیئرمین محمد ایل قویز نے سرکاری اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے مندوبین سے خطاب کرتے مملکت کا جی 20 کی صدارت کے لیے خلاصہ بیان کرتہ ہوئے کہا تھا: ’سرمائے کی مارکیٹوں کی مضبوطی، مقامی کرنسی کی ترقی اور بانڈ مارکیٹیں سعودی عرب کی اہم ترجیحات ہیں۔‘

کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے تین ماہ بعد دنیا کی ایک تہائی آبادی اب قرنطینہ میں ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں اپنی ایک تہائی قدر کھو چکی ہیں اور بہت سی معیشتوں کو جدید تاریخ میں بڑے امدادی پیکج کے ذریعے سہارا دیا جا رہا ہے۔

کویڈ-19 کے دنیا بھر میں انسانوں پر خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے پاس یہ ایک منفرد موقع ہے کہ وہ ہماری نسل کو درپیش صحت عامہ کے اس سب سے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مربوط عالمی ردعمل میں مرکزی کردار ادا کرے۔

سعودی عرب اپنی جی 20 کی قیادت کو بروئے کار لاتے ہوئے کرونا کے عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کے کرداروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرسکتا ہے۔ وہ کرونا وائرس کی بیماری کے علاج کے لیے بائیو میڈیکل کو مضبوط بنانے کی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔ وہ کاروبار اور حکومت کی مدد کے لیے سپلائی چین، افرادی قوت اور دوسرے شعبوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

سعودی عرب بالخصوص تین طریقوں سے اس بحران سے نمٹنے میں مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے، اوّل، سعودی عرب مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، اے آئی) ٹیکنالوجی کی ایجادات کے ذریعے کویڈ-19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے معاونت کرسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹیسٹ کٹ کی تیاری کے عمل کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ وائرس پھیلنے کے انداز کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور دنیا بھر میں شہریوں میں بروقت معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں۔

اے آئی کے ذریعے وائرس پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ اس سے یہ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس اینٹی باڈی کے لیے کون سی دوا مناسب رہے گی اور کرونا وائرس کے مریضوں کے اجتماعی ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔

سعودی عرب اس وقت سعودی ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت اتھارٹی کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی ایجادات میں سب سے آگے ہے اور وہ ہیلتھ ٹیکنالوجی میں علاقائی لیڈر ہے۔ سعودی ہیلتھ ٹیک کمپنیاں جیسے صحہ ٹیک اور دنیا کا عربی میں صحت کا مصنوعی ذہانت کا بڑا ادارہ نالا مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا (مینا) کے خطے میں حفظان صحت کی مارکیٹ میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اس مارکیٹ کی مالیت کا 2020 میں 144 ارب ڈالر لگائی گئی ہے۔

عالمی اے آئی سمٹ ستمبر میں ریاض میں منعقد ہوگی۔ یہ سعودی عرب کے لیے اپنی قیادت کو ظاہر کرنے کا ایک اور موقع ہوگی۔ اس میں دنیا بھر کی مصنوعی ذہانت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی جمع ہوگی۔ اس میں کرونا کے موجودہ بحران کے حل اور مستقبل میں ایسے ہی کسی اور بحران سے بچاؤ کے لیے آلات کی تیاری میں سفارشات مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔

دوم، سعودی عرب عالمی معیشتوں کی بحالی کے لیے ایک مشترکہ عالمی اقدام کی قیادت کرسکتا ہے تاکہ موجودہ عالمی کساد بازاری ایک عظیم اقتصادی بحران میں تبدیل نہ ہوسکے۔ اس وقت اگرچہ میڈیا نے درست طور پر کویڈ-19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صحت عامہ کے بحران پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، ایسے میں ایک بین الاقوامی اقتصادی پالیسی وضع کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درپیش مشترکہ چیلنجز سے نمٹا جاسکے اور جب اس بحران کی گرد بیٹھ جائے تو پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس مقصد کے لیے سعودی عرب جی 20 کے صدر ملک کی حیثیت سے حکومتوں  بین الاقوامی تنظیموں اور دوسرے شراکت داروں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔

سوم، سعودی عرب اس بحران کے بعد مثبت تبدیلی کے لیے مواقع کی تلاش میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے اور ایک عالمی فورم تشکیل دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت فاصلاتی تدریس کے ذریعے لاکھوں طلبہ کریش کورس کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک سوال یہ ہے کہ کیا فاصلاتی تدریس روایتی تعلیم سے بہتر ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب کے تعلیمی ٹیکنالوجی کے لیے گہرے مضمرات ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کے اور مواقع بھی پیدا ہوں گے اور درحقیقت فیشن ٹیک سے فن ٹیک تک کے شعبوں میں پہلے ہی پیدا ہوچکے ہیں۔

اس وقت ہم سب کو ایک مشترکہ چیلنج درپیش ہے اور ہم ایک نامعلوم دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ یہ ایسا دشمن ہے کہ وہ لوگوں اور صنعتوں کو یکساں انداز میں متاثر کر رہا ہے۔ اس لیے اب بین الاقوامی تعاون اور مشارکت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب نے دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں کویڈ-19سے نمٹنے کے لیے زیادہ تیز رفتاری سے اقدامات کیے ہیں۔ اس نے ایک ہزار سے بھی کم کیسوں کی تصدیق سے قبل تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد ورفت پر پابندی عائد کردی تھی اور مارچ کے وسط میں اس نے مکہ مکرمہ میں عمرے اور زائرین کی آمد پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔

اس طرح کے فوری اقدامات سے کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی ہے جو اس خطے اور دنیا میں آبادی کے تناسب سے کم تعداد ہے۔ اب اس کو اس مہلک وبا سے نمٹنے کے لیے مربوط عالمی ردعمل میں جی 20 کے صدر کی حیثیت سے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

۔۔۔

بشکریہ العربیہ اردو

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ