پکڑے جاتے ہیں فرشتے بھی

جب سے شہزاد اکبر نے شہباز شریف کے خلاف پریس کانفرنس کی ہے، غالب کے مصرعے کے نئے معانی سامنے آ رہے ہیں۔

عمران خان نے کچھ بھینسیں ’خیر سگالی‘ کے جذبے کےتحت شہباز شریف صاحب کے حوالے کر دی تھیں  تاکہ وہ حکومت کے آگے بین بجانےکے بجائے اپنے بڑے بھائی کی بھینسوں کے آگے ہی بین بجاتے رہیں (تصویر:روئٹرز)

’آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے‘ جیسی مقبول غزل کہنے اور خود بھی آوارگی میں حد سے گزرنے جانے والے ہمارے شاعر دوست حسن عباس رضا کو ملکہ ترنم نورجہاں ایک ناگفتہ بہ لطیفے کی وجہ سے ’فرشتہ‘ کے نام سے پکارتی تھیں۔

ایک دفعہ انہوں نے حسن کو فون کیا۔ ہمارے بھابھی نے فون اٹھایا تو میڈم نورجہاں نے کہا: ’میں نورجہاں بول رہی ہوں۔ فرشتے سے میری بات کراؤ۔‘

بھابھی نے برجستہ جواب دیا: ’میں کسی فرشتے کو تو نہیں جانتی۔ البتہ ایک شیطان یہاں موجود ہے، کہیں تو اس سے بات کرا دیتی ہوں۔‘

اس فرشتے نما شیطان یا شیطان نما فرشتے سے ہماری دوستی دو دہائیوں پر محیط ہے اور وہ بر سرِ محفل ہماری دوستی کا دم بھی بھرتا ہے لیکن حرام ہے جو اس نے آج تک ہمارے اکاؤنٹ میں ایک روپیہ بھی ڈالا ہو۔ ادھر شہباز شریف کے فرشتے ہیں کہ انہوں نے ان کی صرف دس بھینسوں کے دودھ میں اتنی برکت ڈالی کہ ان کے اکاؤنٹ میں راتوں رات کروڑوں روپے آ گئے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو اس کے لیے ایک خصوصی پریس کانفرنس کرکے انہیں سامنے لانا پڑا۔

اس خصوصی پریس کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا: ’شہباز شریف جن فرشتوں کو کروڑوں روپے کا دودھ بیچتے تھے وہ سامنے آ چکے ہیں۔ شہباز شریف کے ان فرشتوں کے نام مسرور انور، شعیب قمر اور ملک مسعود ہیں اور یہ تینوں شہباز شریف کے ملازم ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ شریف گروپ کے ایک ’فرشتے‘ مسرور انور نے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے۔‘

 شہباز شریف نے کچھ ہی دن پہلے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھینسوں کا ایک باڑا بنا لیا ہے جس میں دس بھینسیں ہیں اور آج کل ان کا ’گزارہ‘ انہی کے دودھ سے چل رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ انہی بھینسوں میں سے ہیں، جو عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے وزیر اعظم ہاؤس میں بندھی ہوئی تھیں اور میاں صاحب کے بڑے بھائی کی ملکیت تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان نے کچھ بھینسیں ’خیر سگالی‘ کے جذبے کے تحت شہباز شریف صاحب کے حوالے کر دی تھیں تاکہ وہ حکومت کے آگے بین بجانے کی بجائے اپنے بڑے بھائی کی بھینسوں کے آگے ہی بین بجاتے رہیں۔ بھیسنوں کو وزیر اعظم ہاؤس سے ’پاک‘ کرنے کے بعد عمران خان اسے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

پھر انہیں خیال آیا کہ ایک ایسی جگہ جہاں پہلے ن لیگ کی بھینسوں کا باڑا رہ چکا ہو، اسے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے سے ہمارے نظام تعلیم میں ن لیگ کی کالی بھینسیں گھس سکتی ہیں، سو انہوں نے یہ جگہ اپنی کالی بھیڑوں کے لیے مناسب سمجھی جو وہاں بیٹھ کر انسانوں کو ڈالے جانے والے چینی اور آٹے نامی سفید چارے کا کاروبار کرتی رہیں۔

فرشتوں کے بارے میں ہماری معلومات کچھ زیادہ نہیں ہیں لیکن جو کچھ ہمیں ان کے بارے میں پڑھایا گیا تھا، اس کے مطابق ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک انسان کے دائیں کاندھے پر بیٹھا ہوتا ہے، جو نیکیاں لکھتا ہے اور دوسرا بائیں کاندھے پر جو بدیاں لکھتا ہے، جس کی بنیاد پر انسان کی جزا و سزا کا نظام مرتب ہوتا ہے۔

بائیں بازو والے فرشتے سے ہم ساری عمر خوف زدہ رہے اور اب بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی طور پر کھبے ہونے کے باوجود ہمیں آج تک ہمت نہیں پڑی کہ لیفٹسٹ کہلائیں یا بائیں بازو کی کسی تحریک کا حصہ بنیں۔ سو ہم اچھے خاصے روشن خیال لکھاری ہونے کے باوجود بھی صلاح الدین درویش اور روش ندیم جیسے دوستوں کی نظر میں ہمیشہ قدامت پرست ہی رہے۔

اب شہزاد اکبر صاحب کی زبانی ہمیں پتہ چلا کہ ضروری نہیں ہر شخص کے ساتھ دو ہی فرشتے ہوں ان کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ خاص کر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کے تو درجنوں فرشتے بھی ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کے تین فرشتے پکڑ ے جانے کے بعد حکومت مخالف نقادوں اور حکومت کے حمایتی محققوں کے درمیان ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ادبی نقادوں کے خیال میں شہباز شریف کے فرشتوں کے پکڑے جانے کا دعویٰ صرف غالب کے اس مصرعے کو جھٹلانے کے لیے کیا گیا ہے:

 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

جس کے جواب میں حکومت کے حمایتی محققین نے داد تحقیق دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ غالب کی زندگی میں چھپنے والے دیوان میں یہ مصرع یوں تھا:

پکڑے جاتے ہیں فرشتے ’بھی‘ لکھے پر ’برحق‘

ہم چوں کہ نہ محقق ہیں اور نہ نقاد اس لیے ہماری رائے دونوں سے مختلف ہے۔ ہماری یہ رائے چوں کہ خالص ’نیبی‘ بروزن عیبی یا غیبی نوعیت کی ہے اس لیے دونوں دھڑوں کو تسلیم کرنا ہی پڑے گی ورنہ نیب ان کی آرا میں عیب ڈھونڈ کر غیب کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔

ہماری رائے میں غالب کا اشارہ عوام کی طرف تھا جو فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جاتے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا تعلق ہے تو وہ صرف نیب کے ہاتھوں ہی برحق یا ناحق پکڑے جا سکتے ہیں۔ ان کے فرشتوں کو اس کی خبر تو کیا ہونی بے چارے خود بھی دھر لیے جاتے ہیں۔ جیسے مسرور انور، شعیب قمر اور ملک مسعود نامی شہباز شریف کے فرشتے دھر لیے گئے۔

شہزاد اکبر صاحب نے مریم اورنگزیب صاحبہ کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ بتائیں مسرور انور کیا بھینسوں کا دودھ فروخت کر کے شہبازشریف کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کراتے تھے؟

ہماری رائے میں اس مسئلے پر مریم اورنگزیب کو چیلنج دینا بنتا ہی نہیں تھا۔ جب خود شہباز شریف نے کہہ دیا تھا کہ ان کا گزارہ آج کل دس بھینسوں کے دودھ پر چل رہا ہے تو ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر مسرور انور بھینسیں نہیں دوہتے تھے تو کیا جنگلا بس کو دوہ کر دودھ حاصل کرتے تھے؟

شہزاد اکبر خواہ مخواہ مریم اورنگزیب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ن لیگ کا ترجمان ہونے کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ وہ ہر لیگی عہدے دار کے باڑے میں بھی جا گھسیں اور دیکھیں کہ کون بھینس دوہ رہا ہے اور کون کٹا۔

یہی وجہ ہے کہ مریم اورنگزیب صاحبہ نے اس کا جو جواب دیا وہ اتنا ہی ناگفتہ بہ ہے جتنا ناگفتہ بہ لطیفہ حسن عباس رضا نے میڈم نور جہاں کو سنا کر ان سے فرشتے کا خطاب حاصل کیا تھا۔ وہ لطیفہ تو ہم نہیں سنا سکے لیکن مریم صاحبہ کا ’لطیفہ‘ چوں کہ میڈیا پر آ چکا ہے سو دوبارہ سن لیجے: ’کھودا پہاڑ اورنکلا چوہا۔ شہباز شریف سالانہ آٹھ کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر اتنی معمولی رقم کی کرپشن کا الزام لگانا شرم ناک ہے۔‘

ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کل ہی جا کر نیب کے چیئرمین سے ملیں اور اپنے قائد شہباز شریف کی اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت ان کے منہ پر دے ماریں تاکہ آئندہ کسی کو ان کے لیڈر پر اس طرح کے ’شرم ناک‘ الزام لگانے کی جرات نہ ہو سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ