بیٹی: ہم عید کی شاپنگ کے لیے کب جائیں گے؟
ماں: باہر کرونا وائرس ہے۔ کوئی شاپنگ نہیں ہو گی۔
بیٹی: کیا مطلب؟ ہم نئے کپڑے نہیں پہنیں گے؟
ماں: لاکھوں بچے نئے کپڑوں کے بغیر عید مناتے ہیں۔
بیٹی: یہ کیسی عید ہوئی؟
یہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک متوسط گھرانے میں ماں بیٹی کے درمیان چند روز قبل ہونے والی گفتگو ہے۔
مسز عبدالقدیر (فرضی نام) اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ نئے کپڑوں کے بغیر بھی عید منائی جا سکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’ہمارے بچوں کے لیے عید سے مراد نئے کپڑے پہننا، پارٹی کرنا اور عیدی لینا ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ پرانے کپڑے اور عید کیسے اکٹھے چل سکتے ہیں۔‘
تین بچوں کی والدہ مسز عبدالقدیر کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کے لیے کرونا (کورونا) وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کو سمجھنا مشکل ہو رہا ہے۔
مہلک کرونا وائرس کی وبا نے پاکستان کے مالی طور پر خوشحال گھرانوں کے لیے اس مرتبہ کی میٹھی عید کا مزہ کرکرا کر کے رکھ دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلانات کے بعد ملک میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں اور شہریوں کی اکثریت آزادانہ گھروں سے باہر جا رہی ہے۔
تاہم کچھ گھرانے کرونا وائرس سے بچنے کے لیے اب بھی گھروں تک محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں یا کم از کم رش والی جگہوں پر خود اور بچوں کو لے جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
عیدالفطر ماہ رمضان کے اختتام پر منایا جانے والا مسلمانوں کا خوشی کا مذہبی تہوار ہے۔ برصغیر میں چھوٹی عید کے نام سے جانی جانے والی عیدالفطر اپنے مخصوص انداز میں منائی جاتی ہے۔ عبادات کے علاوہ نئے کپڑے اور جوتے پہننا، دوست احباب سے ملنا اور دعوتوں کا اہتمام عیدالفطر پر عام سرگرمیاں ہیں۔
مالی طور پر خوشحال گھرانوں میں عیدالفطر پر لڑکیوں اور خواتین کا چاند رات پر بازار جا کر مہندی لگانا اور چوڑیاں پہننا، عید کے روز بچوں کا بزرگوں سے عیدیاں لینا اور دعوتوں اور پارٹیوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم کرونا وائرس کی وبا کے باعث اس مرتبہ پاکستان کی اشرافیہ کو عیدالفطر پر اپنی سرگرمیاں محدود رکھنا پڑ رہی ہیں اور ان گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو اس عید پر نئے کے بجائے پرانے کپڑوں میں ہی عید منانا ہو گی۔
مسز عبدالقدیر کی صاحبزادی فائزہ (فرضی نام) کا کہنا تھا: ’میں نے کبھی ایسی عید کا نہیں سوچا تھا جس پر نئے کپڑے اور جوتے نہ ہوں یا ہم گھر سے باہر جا کر چاند رات نہ منائیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ چوڑیوں، مہندی اور عیدی کے بغیر بھی عید ہو سکتی ہے۔‘
بہت سارے لوگ بازار جانے کے بجائے عید کی خریداری کے لیے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دے رہے ہیں اور گھر بیٹھے کپڑوں اور جوتوں کے آرڈر دیے جا رہے ہیں۔
تاہم آن لائن شاپنگ کے کچھ اپنے مسائل ہیں جن میں کپڑوں اور جوتوں کے سائز اور معیار کے علاوہ خریدی گئی اشیا کی وقت پر ترسیل نہ ہونا شامل ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صنعت کار کے بیس سالہ بیٹے فرقان (فرضی نام) کا اس عید سے متعلق کہنا تھا: ’میں زندگی میں پہلی مرتبہ عید کے لیے نئے کپڑے اور جوتے نہیں خریدوں گا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے والد کا کاروبار میں بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو اور ہم نئے کپڑے خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
پاکستان کی ایک بہت بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ اور کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے عیدالفطر پر نئے کپڑے اور جوتے ملنا بہت بڑی خوشی کا سبب بنتا ہے۔
اکثر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والے گھرانوں کے بچے شاید جانتے بھی نہ ہو کہ عیدالفطر پر نئے کپڑے بھی پہنے جاتے ہیں۔ یا دعوتیں یا عیدی بھی کوئی چیز ہوتی ہیں۔
اس سلسلہ میں انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں مزدوری کرنے والے بچوں سے سوال کیا کہ وہ عیدالفطر کیسے مناتے ہیں؟
ان میں سے اکثر بچوں کے لیے عید کی چھٹیوں میں گھر جانا سب سے بڑی خوشی تھی۔ بہت کم بچوں میں نئے کپڑوں، جوتوں یا عیدی ملنے سے متعلق کسی قسم کا جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔
اسلام آباد شہر کے قریب واقع ایک آبادی میں چائے کی دکان پر کام کرنے والے سولہ سالہ عبدالحمید کا کہنا تھا: ’ مجھے نہیں یاد کہ عید پر کبھی نئے کپڑے پہنے ہو۔ پرانے ہی دھو کر نماز کے لیے پہن لیتے ہیں۔‘
فرنیچر کے کارخانے میں مددگار کے طور پر کام کرنے والے ملتان کے شاکر کی والدہ نے گذشتہ سال پیسے جمع کیے تھے کہ عید پر بچوں کے لیے نئے کپڑے بنائیں گی، لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
شاکر نے بتایا: ’پچھلے رمضان میں ابا بیمار ہو گئے اور وہ سارے پیسے ان کی بیماری پر خرچ ہو گئے۔ عید پر ہم نے پرانے کپڑے پہنے۔‘
نفسیاتی اثرات
اسلام آباد میں نجی ادارے سے منسلک کلینیکل سائیکالوجسٹ صائمہ صغیر کا کہنا تھا کہ اس وقت معاشرہ ایک خوف کی کیفیت کا شکار ہے اور ٹراما کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑ رہا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچے کسی بھی روٹین میں تبدیلی پر سوالات اٹھاتے ہیں اور تسلی بخش جواب نہ ملنے پر نہ صرف کنفیوز بلکہ خوف کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
صائمہ صغیر کا خیال تھا کہ اس عید پر غیر معمولی صورت حال سے وہ بچے زیادہ متاثر ہوں گے جن کے والدین سارا سال عید کے کپڑوں کے لیے پیسے بچا کر رکھتے ہیں۔
ایسے بچوں کو اب کرونا وائرس کی وبا کے باعث نئے کپڑوں اور جوتوں سے محروم رہنا پڑے گا۔ ایسے مڈل اور لوور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا خوشحال گھرانوں میں بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے کافی وسائل موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین کے لیے آسان ہوتا ہے بچوں کی توجہ بٹانا۔
انہوں نے مزید کہا: ’معاشی طور پر مستحکم گھرانوں کے بچوں پر اس صورت حال کا کوئی بہت زیادہ برا اثر نہیں پڑے گا۔ وہ بچے سوال تو اٹھائیں گے اور تھوڑی دیر کے لیے ڈیپریس بھی ہوں گے۔ تاہم والدین انہیں دوسری چیزوں میں مصروف کر کے ڈیپریشن سے باہر لا سکتے ہیں۔‘