تیز مسالہ اور کھولتا ہوا پریشر ککر

جب پریشر ککر میں پہلے ہی بہت مسالہ ہو اور ڈھکن سختی سے بند ہو تو نیچے آگ تیز کرنا خطرے سے خالی نہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں کو عید کے بعد نیب دھر لے گی اور کچھ گرفتاریاں توازن دکھانے کے لیے کی جائیں گی تاکہ نیب اور انصافی سرکار دونوں خود کو سرخرو کر سکیں(روئٹرز)

حکومتی حلقوں کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس کو شکست دی جا چکی، اب احتساب کا وقت آ پہنچا ہے۔

چینی کمیشن کی رپورٹ جو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کی گئی تھی اب سامنے لائی جا چکی ہے۔ اب وقت احتساب کی عظیم کارروائی پر تحسین سمیٹنے کا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شہزاد اکبر اور نئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کی مشترکہ پریس کانفرنس، جس میں احتساب کے اعلیٰ افسر ہی زیادہ تر بولتے رہے، ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ رپورٹ جوابی گولہ باری سے دب گئی ہے۔

اب احتساب کے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ باوجود اس بات کے کہ بعد از عید سیاست دانوں کی نئی گرفتاریوں اور میڈیا پر پابندیوں کا شور و غوغا ہے، کرونا وبا کے عید کے بعد زیادہ خوف ناک شکل میں سر اٹھانے کے خدشات ہیں۔ پریشر ککر میں پہلے ہی بہت مسالہ ہے، اب درجہ حرارت بلند کرنے کی تیاری ہے۔ اللہ خیر کرے۔

آٹا اور چینی کمیشن میں پہلا گناہ اس کمیشن کی تشکیل ہے۔ اگر عمران خان کے ان اصولوں پر کمیشن تشکیل ہوتا تو سب سے پہلے ان تمام افراد کو حکومتی عہدوں سے الگ ہونا تھا جن کے کردارپر تفتیش ہونی تھی تاکہ اصولوں کے تحت وہ تفتیش پر اثر انداز نہ ہوتے۔

چینی سکینڈل کے تین اہم اجزا ہیں۔ چینی کے مل مالکان کو ارزاں نرخ پر چینی بیچنے کی اجازت دینا، جس کے نتیجے میں ان مل مالکان نے عوام سے ایک سو ارب روپے سے زائد ہتھیائے۔ اس سکیںڈل کا دوسرا حصہ مل مالکان کو چینی برآمد دینے کی اجازت دینا ہے جب کاغذوں میں چینی ملک میں ضرورت سے کم تھی۔ تیسرا اہم حصہ سبسڈی دینے کا ہے۔

چینی مل مالکان کی طرف سے سو ارب روپے سے زائد عوام سے اینٹھنے کی اجازت وفاقی حکومت نے دی۔ عمران خان کی صدارت میں برآمد کی اجازت دی گئی، اسد عمر اپنے بنائے ہوئے کمیشن کے سامنے معاشی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) کی طرف سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کا دفاع نہیں کر سکے۔

اس رپورٹ کے جاری ہونے سے بہت پہلے سینیئر صحافی انصار عباسی نے بڑی تفصیل سے ثابت کر دیا تھا کہ عثمان بزدار، اسد عمر، رزاق داؤد اور سب سے بڑھ کر عمران خان خود اس معاملے کے اہم کردار ہیں۔ خسرو بختیار اور ان کے بھائی جو پنجاب کے وزیر خزانہ ہیں، اس معاملے کے اہم کردار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تمام حقائق کے بعد اگر عمران خان ان اصولوں پر چلتے جن کے تحت وہ ہر سکینڈل کے بعد پی پی پی حکومت اور ن لیگ حکومت کے ارکان بشمول وزرائے اعظم کو پہلے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے تھے تاکہ ان کے بقول وہ تفتیش پر اثر انداز نہ ہو سکیں تو ان تمام کرداروں کو بشمول عمران خان استعفے دینے چاہیے تھے۔

بجائے استعفے دینے کے انکوائری کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس کو ربڑ کی طرح کھینچ کر پچھلے سالوں کی سبسڈی کے معاملات ڈال دیے گئے تاکہ دائرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ انصافی سرکار اور ان کے چہیتوں کی پردہ پوشی کی جا سکے۔ اب معاملہ صرف جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی ملوں کا نہیں بلکہ سندھ میں اومنی گروپ کو بھی ڈال دیا گیا ہے جبکہ پچھلے کئی سالوں سے سندھ حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی۔

ساتھ ہی ن لیگ کے دور میں دی گئی سبسڈی کو بھی ڈالا گیا ہے تاکہ اس دور کے وزرا اور وزرائے اعظم کو بھی اس سکینڈل میں گھسیٹا جا سکے اور اتنی دھول اڑائی جائے کہ موجودہ سکیںڈل کے کردار چھپ جائیں۔

رپورٹ کے کئی اجزا خاصے دلچسپ ہیں جن میں سب سے زیادہ دلچسپ بزدار صاحب کی گمشدہ یادداشت کا قصہ ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے تھے کہ سبسڈی کا فیصلہ انہوں نے وفاقی حکومت کے ساتھ صلاح و مشاورت کے بعد کیا تھا۔ یہ راز ابھی افشا نہیں ہوا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کے کن ارکان سے صلاح و مشورہ کیا تھا۔ کیا ان میں وزیر اعظم بھی شامل تھے کہ نہیں۔

سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ انصافی سرکار اپنی ناک کے نیچے کی گئی اس لوٹ مار، جس کی منظوری انہوں نے خود دی تھی، اپنے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ جس میں ان کے اپنے اہم کرداروں کو ملوث دکھایا گیا ہے، خود ہی داد بھی وصول کر رہے ہیں اور قصوروار صرف فائدہ اٹھانے والوں کو قرار دے رہے ہیں۔

مزیدار بات یہ ہے کہ سندھ کی پرانی رپورٹ میں تو قصوروار سندھ حکومت اور ن لیگ کی سرکار ہے، جس نے سبسڈی دی تھی لیکن اپنے بڑے سکینڈل میں نہ سبسڈی دینے والے، نہ برآمد کی اجازت دینے والے اور نہ قیمت میں ہوشربا اضافے کی اجازت دینے والے کا کوئی قصور ہے۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آوے، اسی کو کہتے ہیں۔

جو بات واضح ہے وہ یہ کہ چینی کمیشن رپورٹ اب متنازع ہو چکی ہے۔ اب اس پر حکومت نے کوئی کارروائی کی بھی تو وہ عدالتوں میں پہنچ جائیں گے اور یہ نئی ٹرک کی بتی ہو گی۔

ابھی آٹے کے بحران کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ بجلی گھروں، آئی پی پی رپورٹ پر ڈھول بجنا بند ہو گئے ہیں، فارن فنڈنگ کیس پانچ سال سے بند پڑا ہے، پشاور میٹرو کا سو ارب روپے سے زائد خرچ ہونے کے باوجود کوئی نام و نشان نہیں، مالم جبہ، ہیلی کاپٹر کیس منجمد ہیں، 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس گم ہو جانے سمیت بڑے پیمانے پر انجینیئرنگ کے ہوش ربا الزامات کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کھوہ کھاتے ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ نہ نیب کو نظر آتا ہے اور نہ کسی اور تحقیقات ایجنسی بشمول ایف آئی اے کو۔

نیب جو اپنے موجودہ چیئرمین کی ایک سے زائد وڈیو اور آڈیو لیکس کے بعد مسلسل دباؤ کی کیفیت میں ہے، بطور ادارہ مسلسل تنقید کا نشانہ ہے۔ نیب نے پچھلے مہینے اسی چینی اور آٹے سکینڈل پر تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن فی الحال اس سلسلے میں ستے خیراں کی خبر ہے اور کوئی آنیاں جانیاں اور پھرتیاں نظر نہیں آ رہیں۔

دوسری طرف ایک 34 سالہ کیس کو بنیاد بنا کر جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل کو شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر دو ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

اب شیخ رشید جو برملا اپنے آپ کو مقتدر حلقوں کے حمائتی قرار دیتے ہیں، کئی بار کہہ چکے ہیں کہ عید کے بعد نیب ہر طرف سے پکڑ دھکڑ کرے گی۔ اشارہ اس طرف ہے کہ کچھ لوگ انصافی سرکار کے بھی دھرے جائیں گے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیر غلام سرور کی نیب میں پیشی سے بھی یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ احتساب بلا امتیاز ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے سبطین خان اور علیم خان کو نیب نے اندر کیا تھا اور موجودہ اعظم سواتی بھی تفتیش بھگت چکے ہیں۔

علیم خان اس وقت پنجاب کے سینیئر وزیر اور اعظم سواتی بھی وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہیں۔ جہانگیر ترین کے دو دن پہلے اس بیان نے، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ان کی نااہلی نواز شریف کی نااہلی کو توازن دینے کے لیے کی گئی تھی، ملک کے پورے نظام بشمول عدالتی نظام کے گرد سیاہ دائرہ کھینچ دیا ہے۔ اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ اگر حکومتی صفوں سے کسی کی گوشمالی ہوئی بھی تو اس کا مطلب حزب اختلاف کے خلاف اصل معرکے کو جائز قرار دینا ہو گا۔

اطلاعات یہ ہیں کہ شہباز شریف، میاں جاوید لطیف، رانا ثنا اللہ سمیت حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں کو عید کے بعد نیب دھر لے گی اور کچھ گرفتاریاں توازن دکھانے کے لیے کی جائیں گی تاکہ نیب اور انصافی سرکار دونوں خود کو سرخرو کر سکیں۔

ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے۔ عالمی اداروں کے بعد اب حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ اگلے سال شرح نمو منفی میں ہو گی۔ چند دن پہلے اب حکومت نے خود یہ بھی تسلیم کر لیا  ہے حکومت کے پہلے سال میں شرح نمو کے جو اعداد و شمار دیے تھے وہ غلط تھے۔

کہا گیا تھا کہ حکومت کے پہلے سال کی شرح نمو، جو اس وقت3.3 فیصد بتائی گئی تھی در اصل 1.9 فیصد تھی۔ اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہ کہ جس حکومت کو ن لیگ کی ’بری معیشت‘ کو ٹھیک کرنے کے لیے لایا گیا تھا، اس نے پہلے ہی سال میں تقریباً چھ فیصد شرح نمو والی معیشت کو دو فیصد سے بھی کم پر لا کھڑا کیا اور اگلے سال منفی کی طرف لے جا رہی ہے۔

مالی خسارہ عروج پر ہے، ہاٹ منی اڑنچھو ہو چکی ہے، قرضوں کے خلاف بیانیے پر آنی والی حکومت پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی قرضے لینے والی حکومت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ ان کے دور میں کروڑ ہا لوگ بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

عمران کی کچن کابینہ میں کون شامل ہے اور کون باہر نکل گیا ہے اس کے قطع نظر اب کابینہ کے اراکین میں رسہ کشی کی خبریں اسلام آباد کے ہر ڈرائنگ روم کی زینت ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں وزرا جانے سے کترا رہے ہیں۔

وزیر ہوا بازی غلام سرور نے تو ٹی وی انٹریو میں غیر منتخب ارکان کابینہ کا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیا۔ عمران خان جو الیکشن سے پہلے 15 رکنی کابینہ کی وکالت کرتے تھے ابھی اس کابینہ کے سربراہ ہیں جس کے ارکان کی تعداد 51 ہو چکی ہے، جس میں 19 ارکان وہ مشیران اور معاونین ہیں جو غیر منتخب ہیں اور اکثر یا غیر ملکی شہری ہیں یا دہری شہریت کے حامل ہیں۔

ابھی نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کو بیچنے کی بات چل رہی تھی، جبکہ ہاٹ منی میں پاکستان کی کس اشرافیہ کا کتنا حصہ ہے، یہ پتہ لگانا باقی ہے۔ ابھی ملکی  ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اس میں حکومت کے کس کارندے کا کتنہ حصہ ہے، حقائق سامنے نہیں آئے لیکن ایک آرڈنیننس کا بہت چرچا ہے۔ یہ ہے کمپنیز آرڈیننس 2017 میں ترمیم کا قصہ۔

اس ترمیم کے بعد کسی بھی ایسے پاکستانی کو جو صرف پاکستانی یا دہری شہریت رکھتا ہو، اگر کسی آف شور کمپنی میں اس کے 10 فیصد یا کم حصص ہوں تو انہیں سرکار کے پاس اسے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ 10 فیصد حصص اپنے نام پر اور باقی اپنے رشتے داروں کے نام پر رکھ لیں اور آپ کو کوئی حساب نہیں دینا۔ یہ سہولت کس کے لیے تخلیق کی گئی ہے، پتہ چلنا باقی ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب کابینہ کے غیر منتخب ارکان جن میں دہری شہریت والے بھی شامل ہیں، دباؤ بڑھ رہا ہے کہ  وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں یہ  ترمیم اپنا مکھڑا لے کر سامنے آ گئی ہے۔

یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب کرونا اپنے نقطہ عروج کی طرف گامزن ہے اور اس کی افزائش کے سامنے تمام رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔ نہ سرکار کو پروا ہے اور نہ عوام کو۔

صرف پچھلے ایک ہفتے میں کرونا مریضوں کی تعداد میں 13 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تحریر تک ہلاک افراد کی تعداد 1067 اور مریضوں کی تعداد 50,694  تھی۔ لیکن جس رفتار سے سب کچھ کھول دیا گیا ہے، اگلے ہفتے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ماہرین مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ جون اور جولائی قیامت خیز ہوں گے۔

یہ امڈتا ہو طوفان ایسے وقت آ رہا ہے جب حکومت کے اندر نااتفاقی ہے، حزب اختلاف اور میڈیا دیوار سے لگے ہیں اور عید کے بعد نئی پکڑ دھکڑ کی خبریں ہیں۔

ان تمام عوامل کا ایسے وقت ہونا جب ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد اپنی کم ترین سطح پر ہو، جہاں ایک چھوٹے سے ناکے پر ایک خاتون کی بدکلامی پورے ملک کو ہلا دے، عدلیہ میں ججوں کے ریمارکس پر طوفان بپا ہو جائے، کرونا کا آنے والا طوفان کیا گل کھلائے گا، کہنا قبل از وقت ہے۔

لیکن جو بات واضح ہے اور دنیا بھر کے تجربات سے اخذ کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جب پریشر ککر میں پہلے ہی بہت مسالہ ہو، ڈھکن زور سے بند ہو، نیچے آگ تیز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب ایسی سیاسی قیادت جو معاملہ فہمی کر سکتی ہو دیوار سے لگی ہو تو انارکی، افراتفری اور انقلاب کی راہیں کھلتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر