’عمران خان نے نوکریوں کا وعدہ کیا تھا، چھین کیوں رہے ہیں؟‘

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاکستان سٹیل ملز میں کام کرنے والے نو ہزار سے زیادہ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ملز کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔

اسلام آباد کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور (اے ایف پی فائل)

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے کراچی میں واقع ملک کی سب سے بڑی صنعتی میگا کارپوریشن پاکستان سٹیل ملز (پی ایس ایم) کی پیداواری صلاحیت بحال کرنے کے لیے نجی شعبہ سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے قدم کے طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بدھ کو پاکستان سٹیل ملز میں کام کرنے والے نو ہزار سے زیادہ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ملز کے ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں۔ وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں اس فیصلہ کی حتمی منظوری دی جائے گی۔

پاکستان سٹیل ملز کے ترجمان محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملازمین کو فارغ کرنے کا مقصد ادارہ کے اخراجات کم کرنا ہے۔ اتنے بڑے سٹاف کے ساتھ نجی شعبہ کے لیے پاکستان سٹیل ملز کو خریدنا کافی مشکل ہو جاتا۔

صنعت اور پیداوار کے وفاقی وزیر محمد حماد اظہر نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ حکومت پاکستان سٹیل ملز کے قرضوں کی تنظیم نو اور اس کی پیداواری صلاحیت کے احیا کے لیے اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے پر غور کر رہی ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ سٹیل ملز کی اٹھارہ سو ایکڑ پر نصب مشینیں اور دوسرے آلات نجی سرمایہ کار کے حوالہ کیے جائیں گے۔ جبکہ اٹھارہ ہزار ایکڑ پر مشتمل زمین حکومت کے پاس ہی رہے گی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ نجی شعبہ سے 15 مختلف پارٹیوں نے پاکستان سٹیل ملز میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں وزارت صنعت کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تین سے زیادہ غیر ملکی کنسورشیمز نے پاکستان سٹیل ملز میں سرکایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کنسورشیمز کے ٹیکنیکل مندوبین سٹیل ملز کے مشاہداتی دورے کر چکے ہیں۔ اب اسلام آباد کی طرف سے طلبی پر یہ ادارے اپنی اپنی پیش کش دیں گے۔

دلچسپی ظاہر کرنے والی کمپنیوں کا تعلق چین اور روس کے علاوہ کچھ دوسرے ممالک سے ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سینیئر اہلکار نے بتایا: ’حکومت کا ارادہ پاکستان سٹیل ملز کو بلڈ آپریٹ ٹرانسفر (بی او ٹی) کی بنیاد پر نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا ہے۔‘

 بی او ٹی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے استعمال ہونے والا ایسا ماڈل ہے جس کے تحت حکومت نجی کمپنی کو کسی منصوبے کو بنانے اور چلانے کے لیے ابتدائی رعایت فراہم کرتی ہے، اور ایک مقررہ وقت کے بعد منصوبہ حکومت کو واپس کر دیا جاتا ہے۔ 

محمد افضل نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کا مطلب اسے بالکل نئے سرے سے کھڑا کرنا ہے۔ یعنی پوری ایک نئی سٹیل ملز تعمیر ہو گی۔

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس ایم کی تقریباً تمام مشینیں پرانی ہیں۔ ان سب کو ہٹا کر نئی اور جدید مشینیں لگانا ہوں گی۔

پرانی مشینیں سائز میں بہت بڑی ہیں۔ ان کا استعمال مشکل ہے۔ اور پیداواری صلاحیت بھی کم ہے۔ جبکہ اب دنیا میں مختصر اور زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والی مشینری دستیاب ہے۔

پاکستان سٹیل ملز ناکام کیوں؟

ستر کی دہائی میں اس وقت کے سوویت یونین کی امداد سے قائم ہونے والی پاکستان سٹیل ملز ملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں سٹیل کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔

پاکستان سٹیل ملز میں لوہے کی ابتدائی پیداوار 11 لاکھ ٹن سالانہ تھی جسے بعد میں بڑھا کر 30 لاکھ ٹن تک لانا تھا۔ تاہم ایسا ہو نہیں سکا۔

پاکستان سٹیل ملز کے ڈیلر ممریز خان کا کہنا تھا کہ موجودہ پی ایس ایم اس کے اوریجنل پلان سے آدھے سے بھی کم ہے۔ یہ تو اس سے بہت بڑا پراجیکٹ بننا تھا۔لیکن ایسا کبھی ہوا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ہزاروں ایکڑ زمین پر اس کی مشینیں لگنی اور تعمیرات ہونا تھیں۔ اور یہ تمام حصے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہونا تھے۔

شروع میں پاکستان سٹیل ملز ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ اندرون ملک سٹیل کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ اس سے زرمبادلہ بھی کمایا جاتا رہا۔ جبکہ ایک وقت میں یہاں تقریباً تیس ہزار ملازمین کو روزگار بھی مہیا تھا۔

سال 2008 میں پاکستان سٹیل ملز کا زوال شروع ہوا جب یہ ایک منافع بخش سے نقصان دینے والا ادارہ بنتا گیا۔

حماد اظہر کے مطابق: 2008 سے اب تک حکومت پاکستان سٹیل ملز کو 55 ارب روپے کے بیل آوٹ پیکجز اور دوسری امداد دے چکی ہے۔ جبکہ ادارہ اب تک 176 ارب روپے نقصانات کر چکا ہے۔ اور اس پر 230 ارب روپے کے قرضہ جات ہیں۔جن کی واگزاری کے لیے حکومت کو ہر مہینے 77 کروڑ روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی احتشام الحق کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر کبھی بھی اس ادارہ کی بہتری کے لیے سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ بلکہ ہمیشہ ایسا لگا جیسے اسے تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہے ہو۔

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اسے روک دیا گیا۔

ریٹائرڈ ایمپلائز یونٹی آف پاکستان سٹیل کے کنوینر مرزا مقصود کا خیال ہے کہ بعض بڑے سرمایہ کار شروع سے پاکستان سٹیل ملز پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں اور اسی وجہ سے یہ ادارہ پنپ نہیں سکا۔

ان کا کہنا تھا پاکستان سٹیل ملز سونے کی چڑیا ہے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے۔

نجکاری پر اعتراضات

پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین نے جمعرات کو کراچی میں ای سی سی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا، اور ملازمین کی برطرفی اور سٹیل ملز کی نجکاری کے فیصلہ کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔

انصاف ٹریڈ یونین آف پاکستان سٹیل ملز کے سیکٹری اطلاعات شفقت بھٹو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اگرچہ ہمارا تعلق تحریک انصاف سے ہے لیکن ہم اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ عمران خان تو نوکریاں دینے کا وعدہ کر کے آئے تھے۔ چھین کیوں رہے ہیں۔‘

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کے پاکستان سٹیل ملز کو پرائیوٹائز نہ کرنے سے متعلق وعدوں کا بھی ذکر کیا جو انہوں نے 2016 میں سٹیل ملز کے ایک دورہ کے دوران کیے گئے۔

شفقت بھٹو نے کہا کہ یونین احتجاج کے علاوہ ملازمین کی برطرفی اور سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف عدالت سمیت ہر فورم پر جائے گی۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیل ملز کا نجکاری کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ تاہم پاکستان سٹیل کے ملازمین اور بعض ماہرین نجکاری کو اس کا آخری حل قرار نہیں دیتے۔

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی احتشام الحق کا کہنا تھا کہ حکومت اگر چاہے تو اس ادارہ کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان سٹیل ملز کے ایک سابق سی ای او نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر حکومت چاہے تو یہ ادارہ چل بھی سکتا ہے اور منافع بخش بھی بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اسے نہایت ہی پروفیشنل انداز میں چلایا جائے جو گذشتہ کئی برسوں سے نہیں ہوا۔

انہوں نے اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے کہا کہ کئی سالوں سے پاکستان سٹیل ملز میں مستقل سربراہ موجود نہیں ہے، بلکہ وزارت کے ایک سیکریٹڑی کو اضافی چارج دیا گیا ہے۔

پاکستان سٹیل ملز کے ڈیلر ممریز خان کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز سے نکالے گئے ملازمین تربیت یافتہ لوگ ہیں اور ملک میں لوہے کے کارخانے میں کام کرنے والے صرف یہی لوگ ہیں، حکومت انہیں ضائع کر رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان