کشمیر کی نرسیں وائرس گھر لے جانے سے ڈرتی ہیں

ایک نرس صائمہ کے مطابق: 'ہم مسلسل ذہنی تناؤ سے گزر رہے ہیں۔ پہلے تو گھر سے نکلتے وقت طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور پھر گھر لوٹتے وقت بھی وسوسے پھر غالب آجاتے ہیں کہ کہیں ہم نادانستہ طور پر وائرس کو اپنے ساتھ گھر تو نہیں لے جارہے۔'

کشمیر کے ایک ہسپتال  کے  کرونا وارڈ میں تعینات ایک نرس ایک خاتون کا درجہ حرارت چیک کر رہی ہیں (تصویر: ریاض ملک)

ڈپریشن سے دوچار 28 سالہ صائمہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی تقریباً 900 ایسی نرسز میں شامل ہیں جو غیرتسلی بخش تنخواہوں پر کم از کم 4000 نیم طبی اہلکاروں کا بوجھ سنبھال رہی ہیں۔

کرونا (کورونا) کی وبا سے قبل ہی یہ نرسز اپنے مطالبات منوانے کے لیے اکثر احتجاج کرتی تھیں، لیکن وبائی صورت حال کے دوران اب یہی نرسز کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کام کررہی ہیں۔

 مسلسل اڑھائی ماہ سے دن بھر اور اکثر اوقات رات کو بھی ہسپتال میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی خدمت کرتے کرتے صائمہ کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ پورا دِن حفاظتی لباس میں کام کرنے کے بعد شام کو وہ اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ کب اوقات کار ختم ہوجائیں اور وہ گھر جا کر تھوڑا آرام کریں اور دوسری صبح پھر محاذ پر سرگرم رہنے کے لیے تازہ دم ہوجائیں۔

کشمیر کے کرونا کے لیے مخصوص ہسپتال کے آئیسولیشن وارڈ میں تعینات درجنوں نرسز کا حال بھی صائمہ سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں کرونا متاثرین کے داخلے کا سلسلہ تھم نہیں رہا۔ صائمہ کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ہے لیکن وہ عجیب ذہنی الجھن سے دوچار ہیں۔ مسلسل 24 گھنٹوں تک مریضوں کی نگہداشت کرکے اطمینان کا احساس ان کے چہرے سے صاف چھلک رہا ہے لیکن ایک عجیب سا خوف بھی عیاں ہے جو دور سے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صائمہ نے کہا کہ انہیں کام کرنے کا کوئی ڈر نہیں ہے اور وہ کرونا مخالف جنگ میں صفِ اول کے سپاہیوں میں شامل ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں لیکن جب گھر لوٹنے کا وقت آتا ہے تو خوشی کے ساتھ طرح طرح کے وسوسے بھی دل میں جنم لیتے ہیں۔ صائمہ کا کہنا تھا: 'کام کا دباﺅ تو ہے ہی لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے ہم مسلسل ذہنی تناؤ سے گزر رہے ہیں۔ پہلے تو گھر سے نکلتے وقت طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور پھر جب گھر واپس لوٹنا ہوتا ہے تو وسوسے پھر غالب آجاتے ہیں کہ کہیں ہم نادانستہ طور پر وائرس کو اپنے ساتھ گھر تو نہیں لے جارہے۔'

 صائمہ اور ان کی طرح ان دیگر نرسوں، جو کرونا کے لیے مخصوص ہسپتالوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں، کو پھر بھی معلوم ہے کہ ان کا واسطہ کرونا کے مریضوں سے پڑا ہے اور وہ ہمہ وقت احتیاطی تدابیر سے کام لے رہی ہیں لیکن باقی چھوٹے اور بڑے ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کو معلوم بھی نہیں ہے کہ ان کے پاس جو بیمار علاج کے لیے آتے ہیں یا جو داخل ہیں، وہ کرونا سے متاثر تو نہیں ہیں۔

ایسے ہی نرسنگ سٹاف میں سری نگر میں قائم امراض اطفال کے واحد ہسپتال ’جی بی پنتھ‘ میں تعینات نرسنگ آفیسر جاوید احمد بھی ہیں۔ جاوید سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ہر مریض مشتبہ ہوتا ہے تاہم پیشے کے تقاضے کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ کسی مریض کو اٹینڈ کیے بغیر نہیں چھو ڑ سکتے۔

جاوید کہتے ہیں: 'یہ گلے شکوے اور شکایتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ بے شک ہمارے مسائل ہیں لیکن ایسے وقت جب پوری انسانیت ایک نظر نہ آنے والے دشمن کی لپیٹ میں ہو تو ذاتی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور ہم ذاتی اور خاندانی مسائل کو پیچھے چھوڑ کر اس وقت صرف اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح کرونا کی وجہ سے ہمارا طبی نظام مفلوج نہ ہونے پائے۔'

سری نگر کے ایک ہسپتال میں کرونا وارڈ میں تعینات طبی عملہ (تصویر: ریاض ملک)


جاوید بھی مانتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے وہ اور ان کے اہل خانہ ذہنی تناﺅ کا شکار ہیں اور دونوں کو ہر وقت ایک دوسرے کی فکر دامن گیر رہتی ہے لیکن فرض سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور وہ یہ سوچ کر اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں کہ اگر ان کی وجہ سے طبی نظام کے ستون ایستادہ رہ سکیں تو وہ بڑی کامیابی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا: 'پہلے گھر پہنچ کر بچے بغلگیر ہوتے تھے لیکن اب بیچ میں فاصلے آگئے ہیں۔ گھر والوں کو ڈر لگا ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنے ساتھ وائرس تو نہیں لایا اور مجھے بھی تشویش رہتی ہے کہ کہیں میں اہل خانہ کے لیے مصیبت نہ جاﺅں اور یہی سوچ ہمیں ایک دوسرے سے دور سے ہی کلام کرنے پر مجبور کردیتی ہے لیکن پھر یہی کشمکش ہمیں جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے اور میں اور میرے گھر والے اگلے روز پھر ایک دوسرے سے یہ کہہ کر رخصت لیتے ہیں کہ یہ جنگ ہمیں جیتنی ہے۔'

کشمیر کے بڑے ہسپتالوں میں تعینات نرسوں کے ساتھ ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں مقررہ پیمانوں سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سبھی بڑے ہسپتالوں میں نرسوں کی شدید قلت ہے اور کرونا بحران نے اس مسئلے کو دو آتشہ کردیا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں نرسوں کی تعیناتی کے لیے قواعد و ضوابط ترتیب دینے والے ادارے نرسنگ کونسل آف انڈیا کے مطابق کسی بھی سرکاری ہسپتال میں مریضوں کو بہتر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہر پانچ مریضوں کے لیے ایک جونیئر گریڈ نرس، ہر دس مریضوں کے لیے ایک سینیئر گریڈ نرس جبکہ ہر 20 مریضوں کے لیے ایک نرسنگ سپر وائزر کی تعیناتی لازمی ہے جبکہ 50 مریضوں کے لیے ایک اسسٹنٹ میٹرن کی تعیناتی بھی لازمی ہے۔

نرسنگ کونسل آف انڈیا نے اپنے قواعد و ضوابط میں لکھا ہے کہ 100 مریضوں کو دی جانے والی طبی امداد کی نگرانی کے لیے ایک میٹرن جبکہ 200 مریضوں کو ہسپتال میں طبی عملے کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد پر نظر رکھنے کے لیے ایک نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کی تعیناتی لازمی ہے۔ جبکہ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت والے وارڈوں، جن میں سرجیکل آئی سی یو، میڈیکل آئی سی یو اور شعبہ ایمرجنسی و حادثات شامل ہیں، میں ہر ایک انتہائی علیل مریض کے لیے ایک جونیئر گریڈ نرس، پانچ کے لیے ایک سینیئر گریڈ نرس اور ہر دس مریضوں کے لیے نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کی تعیناتی لازمی ہے، نیز ادارے کے مطابق انتہائی نگہداشت والے وارڈوں میں ہر 25 مریضوں کے لیے ایک نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کی تعیناتی لازمی ہے تاہم شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ان قواعد و ضوابط کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔

کشمیر کے بڑے ہسپتالوں میں تعینات نرسوں کے ساتھ ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں مقررہ پیمانوں سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے (تصویر: ریاض ملک)


 گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر سے منسلک سات بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے قائم کیے گئے 2530 بستروں پر داخل مریضوں کو 24 گھنٹے بہتر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے 4015 نرسوں کی ضروررت ہے جبکہ اس وقت مختلف گریڈوں میں صرف 892 نرسیں ہی تعینات ہیں جبکہ نرسوں کی 1638 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ گوکہ بہت پہلے ٹرشری کیئر ہسپتالوں میں مزید 264 نرسنگ اسامیاں تخلیق کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم وہ منصوبہ بھی سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے۔

کشمیر میں نرسوں کی انجمن ’نرسنگ ایسو سی ایشن آف کشمی‘ کی صدر پروین خان اس ضمن میں کہتی ہیں کہ 'پچھلے 30 سال کے دوران اگرچہ ہسپتالوں کے بستروں میں کئی گناہ اضافہ کیا گیا مگر نرسنگ عملے کی اسامیاں وجود میں نہیں لائی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دستیاب عملے پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔'

پروین کہتی ہیں کہ عمومی حالات میں رات کے دوران ہسپتالوں میں 40 مریضوں کے لیے ایک ہی نرس تعینات رہتی تھی جو اکیلے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی لیکن اب کرونا کی وجہ سے یہ بحران مزید سنگین ہوگیا ہے کیونکہ سماجی دوریوں کے اصول کو دھیان میں رکھتے ہوئے ڈیوٹی روسٹر بنائے گئے ہیں جہاں نرسوں کو مسلسل 24 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور پھر دو یا تین دن کی رخصتی کے بعد دوبارہ حاضر ہونا پڑتا ہے جبکہ گائیڈ لائنز بتاتی ہیں کہ صحت ورکرز سے ہفتے میں صرف 36 سے 40 گھنٹے کام لیا جائے لیکن یہاں تو نرسوں کو کوئی رِسک الاﺅنس بھی نہیں دیا جا رہا اور تنخواہیں بھی بھارت کے دیگر حصوں میں کام کرنے والی نرسوں سے کہیں کم ہیں۔

حکام بھی اعتراف کرتے ہیں کہ نرسنگ کے عملے کی کمی ہے۔ اس ضمن میں پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر ڈاکٹر سامعہ رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'مجھے فخر ہے کہ ہماے طبی و نیم طبی عملے نے ان ایام میں کوئی شکایت کیے بغیر جاں فشانی سے کام کیا حالانکہ اس بات سے بھی انکار نہیں ہے کہ میڈیکل کالج سری نگر سے منسلک ہسپتالوں میں نرسنگ عملے کی کمی ہے مگر اسامیوں کو وجود میں لانے کے لیے ہم نے سرکار کو فائل بھیجی ہے اور دیکھتے ہیں کہ ریاستی سرکار کتنی اسامیوں کو وجود میں لانے کی منظوری دیتی ہے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا