میری دیانت داری پر لگنے والے الزام غلط ہیں: سلیم ملک

سابق ٹیسٹ کپتان نے خود پر لگنے والے الزامات کا تفصیلی جواب پی سی بی میں جمع کراتے ہوئے زور دیا ہے کہ بورڈ ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرے۔

سلیم ملک نے 1981 سے 1999 کے دوران 103 ٹیسٹ اور 263 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی (اے ایف پی)

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کپتان سلیم ملک نے کہا ہے کہ ان کی دیانت داری پر سوال اٹھانے والے الزامات غلط ہیں اور یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ان کے ساتھ منصفانہ طریقے سے پیش آئے۔

ملک نے پیر کو کہا کہ پی سی بی نے انہیں جو ٹرانسکرپٹ دی وہ 'بدنیتی' پر مبنی تھی اور انہوں نے اس حوالے سے ایک تفصیلی جواب جمع کرا دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایوسی ایٹڈ پریس کے مطابق2001 میں سلیم ملک کی انگلینڈ میں کچھ ملاقاتوں کے دوران رپورٹر مظہر محمود نے ایک سٹنگ آپریشن کیا تھا، جس کے نتیجے میں الزامات پر مبنی ایک ٹرانسکرپٹ سامنے آئی تھی۔

مظہر وہی رپورٹر ہیں جنہوں نے 2010 میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی خبر بریک کی تھی جس میں محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف شامل تھے۔ 

پی سی بی نے 1981 سے 1999 کے دوران 103 ٹیسٹ میچ اور 263 ون ڈے انٹرنیشنل مقابلے کھیلنے والے سلیم ملک پر جسٹس ملک محمد قیوم کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات کی بنیاد پر 2000 میں پابندی لگا دی تھی۔

انکوائری رپورٹ میں ملک پر پابندی کے علاوہ وسیم اکرم، انضمام الحق اور وقار یونس سمیت متعدد کرکٹرز پر جرمانے عائد کیے گئے تھے۔

بعد ازاں ملک نے پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور اکتوبر 2008 میں ایک سول کورٹ جج  نے ان کی سزا یہ کہہ کر ختم کر دی تھی کہ پابندی عائد کرنا بورڈ کے اختیار میں نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک نے پیر کو کہا کہ انہوں نے آٹھ سال تک عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑا اور اس دوران پی سی بی کبھی بھی وہ ٹرانسکرپٹ پیش نہ کر سکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس ملک قیوم کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ جج نے بعد میں ٹی وی پر گفتگو میں تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے اپنے فیصلے میں کچھ کرکٹرز کو رعایت دی۔

'میں کافی عرصے تک انصاف کا منتظر رہا۔ میں نے کبھی اپنے بیانات میں کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، سبھی اچھے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے شاندار طریقے سے ملک کی خدمت کی۔'

'اس دوران میں نے بھی پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے ملک کے لیے کئی میچ جیتے اور میرا حق ہے کہ مجھ سے منصفانہ برتاؤ رکھا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ پچھلے 10 سالوں میں پی سی بی میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں اور میں اچھے کے لیے پر امید ہوں۔'

خیال رہے کہ پچھلی ایک دہائی میں پی سی بی نے محمد عامر، سلمان بٹ، محمد آصف اور شرجیل خان سمیت پابندی کے شکار متعدد کرکٹرز کو قومی ٹیم میں شامل ہونے یا پھر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی ہے۔

ملک نے 2008 میں عدالت کی جانب سے پابندی ختم ہونے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پی سی بی نے انہیں قومی کرکٹ اکیڈمی کا ہیڈ کوچ بننے کی پیشکش کی ہے، لیکن اس وقت کے بورڈ چیئرمین اعجاز بٹ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ