کرونا کا خطرہ تھا تو ٹیسٹ کروا لیا مگر نتیجے کا خوف بہت تھا

میں نے سب سے پہلے قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھا کہ کن لیبارٹریز کو حکومت نے ٹیسٹنگ کے لیے موزوں قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک لیبارٹری اسلام آباد میں ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ کی سروس مہیا کرتی ہے اس لیے میں نے اس کا انتخاب کیا۔

کرونا (کورونا) وائرس ملک بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور جن لوگوں میں علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا سوال ہوتا ہے کہ اپنا ٹیسٹ کہاں سے کروائیں اور کیسے کروائیں کیونکہ ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری میں کرونا وائرس کے متعدد مریض آتے ہیں۔

میری فیملی عید پر گاؤں گئی مگر میں اس کے ساتھ نہیں گیا۔ گاؤں میں دو دن گزارنے کے بعد فیملی واپس آئی تو اس کے ایک دن بعد پتا چلا کہ گاؤں میں ان کا کرونا وائرس سے متاثرہ شخص سے رابطہ ہوا تھا۔

گھر میں بھی کرونا کا خطرہ منڈلانے لگا اور گھر والوں نے اپنے آپ کو قرنطینہ کر لیا۔ دو ہفتے قرنطینہ کے بعد جب قرنطینہ سے باہر نکلنا تھا تو اس سے پہلے ضروری تھا کہ ٹیسٹ کروا لیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ وائرس تھا بھی یا نہیں اور اگر ہے تو قرنطینہ کے دورانیے کو بڑھایا جائے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پوری فیملی میں کسی شخص میں بھی کرونا کی کوئی علامات نہیں تھیں۔

اس لیے میں نے اپنا ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی ایسی جگہ سے جہاں پر آپ کرونا وائرس کے مریضوں یا ممکنہ متاثرہ افراد سے کم رابطے میں ہوں کیوں کہ عمومی طور لیبارٹریز میں متاثرہ افراد کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے سب سے پہلے قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھا کہ کن لیبارٹریز کو حکومت نے ٹیسٹنگ کے لیے موزوں قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک لیبارٹری اسلام آباد میں ’ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ‘ (اپنی گاڑی میں موجود رہ کر ہی نمونہ جمع کروانا) کی سروس مہیا کرتی ہے اس لیے میں نے اس کا انتخاب کیا۔ سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ اس لیبارٹری میں ٹیسٹ PCR ٹیسٹ کی سہولت تھی جس کا نتیجہ عام طور بہتر سمجھا جاتا ہے اور لیبارٹری ٹیسٹ کی قیمت بھی صرف 2 ہزار روپے تھی۔ باقی لیبارٹریاں اسی ٹیسٹ کے لیے سات سے آٹھ ہزار روپے فی ٹیسٹ لیتی ہیں۔

میں نے لیبارٹری میں فون کر کے اپائنٹمنٹ لی اور مجھے انہوں نے ایک گھنٹے میں آنے کے لیے کہا۔ میرا خیال تھا کہ یہ ایک نجی لیبارٹری ہے کیوں کہ قومی ادارہ صحت کے مطابق اسی نجی لیبارٹری کہا گیا تھا اور قانونی طور پر یہ لیبارٹری نجی ہی ہے۔ مگر یہ لیبارٹری ایک سرکاری ادارے کی ویلفیئر ٹرسٹ کے نیچے کام کرتی ہے۔

ڈرائیو تھرو ٹیسٹ سے میرا اندازہ تھا کہ میں گاڑی میں ہی بیٹھا رہوں گا اور یہیں بیٹھ کر میں نمونہ جمع کرواؤں گا اور گاڑی میں بیٹھے ہی پیسے جمع کروا دوں گا۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ مجھے پیسے جمع کروانے کے لیے لیبارٹری کے اندر جانا پڑا جہاں پر کرونا وائرس سے ممکنہ متاثرہ اور افراد بھی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

خیر وہاں موجود تمام افراد سے اچھا خاصہ فاصلہ رکھتے ہوئے میں نے 15 منٹ پیسے دینے کے لیے انتظار کیا اور پھر واپس گاڑی میں آیا تو وہاں پھر انتظار کرنا پڑا۔ یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اگر پیسے دینے کے لیے لیب کے اندر ہی آنا ہے تو اسے ڈرائیو تھرو کہنے کا فائدہ؟ جب آپ پیسے دینے کے لیے اندر آ رہے ہیں تو نمونہ بھی اندر ہی جمع کر سکتے ہیں۔

جب گاڑی میں نمونہ لینے کے لیے طبی عملے کا ایک شخص آیا تو ’سوواب‘ SWAB (نمونہ لینے کے لیے) اس نے گلے کے کافی اندر تک گھسایا جو کہ تکلیف دہ تو نہیں تھا مگر آرام دہ بھی نہیں تھا۔ اس تمام کام کو ایک منٹ بھی نہ لگا اور وہ نمونہ لے کر چلا گیا۔

ٹیسٹ کا رزلٹ آن لائن آنا تھا۔ ٹیسٹ سے پہلے جب میں نے لیبارٹری کا فیس بک پیج دیکھا تھا تو اس میں درج ٹیسٹ کے نتیجہ کا وقت 48 گھنٹے درج تھا۔

مگر وہاں پہنچا تو لیبارٹری کے کیش ڈیسک پر بیٹھے شخص کا کہنا تھا کہ نتیجہ 5 دن میں آئے گا۔ مجھے جو رسید دی گئی اس میں بھی پانچ دن کا لکھا گیا تھا۔

خیر تین دن گزرنے کے بعد ٹیسٹ کا نتیجہ ویب سائٹ پر موجود تھا۔ ٹیسٹ کھولنے کے لیے لنک پر کلک کرنے سے پہلے مجھے یقین تھا کہ ٹیسٹ کا نتیجہ منفی ہی ہو گا کیوں کہ ان دنوں میں گھر میں موجود کسی شخص میں بھی کرونا کی علامات نہیں تھی۔ مگر کچھ ایسے کیسز بھی ہیں جہاں آپ متاثرہ ہوتے ہیں مگر علامات سامنے نہیں آتی۔ اس کے علاوہ یہ ٹیسٹ قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد کروایا جس میں قوی امکان یہی تھا کہ اگر کرونا وائرس تھا بھی تو اتنے دنوں میں اپنی موت مر گیا ہو گا۔

ٹیسٹ کھولتے وقت بچپن بھی یاد آیا جب بورڈ امتحانات کا نتیجہ دیکھنے کے لیے فیڈرل بورڈ کی ویب سائٹ پر جا کر اپنا رول نمبر ڈالنے سے پہلے ٹینشن ہوتی تھی کہ کیا ہو گا۔ اسی کیفیت کے ساتھ لنک پر کلک تو اللہ کے کرم سے ٹیسٹ منفی تھا۔ زندگی میں پہلی بار ٹیسٹ کا نتیجہ ’منفی‘ آنے پر خوشی ہوئی۔

میرے لیے یہ تجربہ جہاں پر سیکھنے کا ایک موقع تھا وہاں کرونا وائرس اور اس کے حوالے سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے جانچنے کا اندازہ بھی ہوا۔ اگر ایک ٹیسٹ میں تین سے چار دن لگتے ہیں تو ان دنوں میں اگر وہ شخص اپنے آپ کو قرنطینہ نہیں کرتا اور میل جول جاری رکھتا ہے تو کیا ہو گا؟ کرونا وائرس کے حوالے سے تین دن بہت زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ طبیعت بگڑنے میں وقت نہیں لگتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی