عام آدمی کی کیا اوقات؟

میں اپنی ایک جاننے والی 65 سالہ مریضہ کے لیے گذشتہ چند دن سے نجی ہسپتالوں میں کمرہ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگی رہی۔ بڑے اثر و رسوخ والوں سے کہلوایا لیکن اسلام آباد کے نجی ہسپتالوں میں بیڈ نہ مل سکا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں صورت حال لاہور اور کراچی سے ابھی بہتر ہے، اس کے باوجود ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے (اے ایف پی)

کرونا وائرس نے تین چار ماہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک اور ان کی قیادتوں کو اس شش و پنج میں رکھا کہ ملکوں اور شہروں کو بند کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ کچھ نے لاک ڈاؤن کیا، دیگر نے نہیں کیا لیکن آخر کار ہم نے دیکھا کہ دنیا کرونا (کورونا) کے ختم ہونے سے پہلے ہی آہستہ آہستہ کھلنے لگی۔ اس پر کئی افراد کا اعتراض سامنے آیا جبکہ بہت سے لوگوں نے حمایت کی۔ پاکستان میں بھی یہی صورت حال رہی لیکن اس تمام تر ہنگامے کے بیچ کرونا پھیلتا گیا۔

سندھ حکومت، جس نے سب سے پہلے صوبہ بند کرنے کا فیصلہ کیا آج وہاں 50 ہزار سے زائد کیسز ہیں۔ پنجاب نے، جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا اور آج وہاں بھی 50 ہزار سے زائد کیسز ہیں۔ دونوں صوبے ایک دوسرے سے کرونا کیسز میں مقابلے پر ہیں۔

اس کے بعد باری آتی ہے خیبر پختونخوا کی جہاں کیسز 17 ہزار سے زائد ہیں لیکن اموات کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ساتھ میں اسلام آباد کو دیکھتے ہیں تو اس میں مصدقہ مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ان تمام بری خبروں کے بیچ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پچاس ہزار سے زائد لوگ اس وبا سے صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن چونکہ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے اور ہسپتالوں میں سہولیات ناپید ہوتی جا رہی ہیں تو  لوگوں میں خوف بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

میں اپنی ایک جاننے والی 65 سالہ مریضہ کے لیے گذشتہ چند دن سے نجی ہسپتالوں میں کمرہ ملنے کی کوششوں میں لگی رہی۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان کے لیے بڑے اثر و رسوخ والے لوگوں سے کہلوایا لیکن اسلام آباد کے نجی ہسپتالوں میں بیڈ نہ مل سکا۔ ہر طرف سے جب انکار ہوا تو آخرکار سرکاری ہسپتال کا رخ کیا۔

بےنظیر شہید ہسپتال راولپنڈی میں بیڈ ملا لیکن وینٹی لیٹر دستیاب نہ تھا۔ پھر متعلقہ افسران کا تعاون حاصل کرنے کی مہم کا آغاز کیا تو اللہ بھلا کرے چند بیوروکریٹس کا کہ ان کے فون پر ایک وینٹی لیٹر بھی ایک دو دن میں کہیں سے دستیاب آگیا اور یوں کسی کی جان بچ گئی۔

یہ تمام واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں صورت حال لاہور اور کراچی سے ابھی کافی بہتر ہے، اس کے باوجود ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ نجی ہسپتال اول تو مریض لیتے نہیں اور اگر لے بھی لیں تو تقریبا ایک لاکھ روپے فی دن کے حساب سے کمرہ ملتا ہے اور اگر اس میں وینٹی لیٹر بھی چاہیے تو اس کے 70، 80 ہزار روپے الگ سے ہیں۔ ہر نجی ہسپتال اپنی مرضی سے بل بنا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اثرورسوخ رکھنے والوں کو اس صورت حال میں بھی کچھ سہولت میسر ہے۔ خبر سنی ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی طبعیت ناساز ہونے پر انہیں ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اللہ انہیں صحت دے لیکن اپنی جاننے والی کے لیے دن رات بھاگ دوڑ کرنے کے بعد جب یہ خبر سنی تو احساس ہوا کہ اس وقت بھی یہاں ایک نہیں دو ہی پاکستان ہیں۔ امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ۔

پاک افواج کی میں بےانتہا عزت کرتی ہوں اور اس ملک کے لیے ان کی قربانیوں سے بھی کوئی انکار نہیں لیکن سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ ملٹری ہسپتالوں میں کرونا کی اس ایمرجنسی میں عام آدمی کو داخل کیوں نہیں کیا جاتا؟ پی اے ایف ہسپتال میں بھی کوئی باہر والوں کو نہیں دیکھتا۔

ایک بڑے آدمی کے لیے ہسپتالوں کے راستے کھلے ہیں اور اسے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن ایک عام آدمی جس کی رسائی نہ وزیر تک ہے اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ تک، اسے سمجھ نہیں آتی کہ اپنی بوڑھی ماں کو لے کر کہاں جائے، اس کے نصیب میں فقط خواری ہی لکھی ہے۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا المیہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت کو ایک پالیسی بنانی چاہیے اور اس کا نفاذ پورے ملک میں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جو بھی صوبائی حکومت ہو وہ اپنی سیاست کو ایک طرف رکھ کر اس پر عمل کرے۔ کاش کہ وہ وقت آئے جب ہم یہ کہہ سکیں کہ خواص نے عوام کا سوچا اور اپنے بچگانہ جھگڑے بھلا دیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک ایک ایمرجنسی کی حالت میں ہے، کرونا کا عفریت روزبروز اپنے پنجے گاڑتا جا رہا ہے۔

بڑھتے کیسز کا مسئلہ ایک طرف، ہسپتالوں میں سہولیات اور ملک کے محدود وسائل کا مسئلہ دوسری طرف، اس کے ساتھ ساتھ عوام میں اور، معذرت کے ساتھ، ایوانوں میں بیٹھے کئی ممبران میں شعور کا فقدان اس پر مستزاد ہے۔ ایسی فضا میں بھی سیاسی جماعتوں کو اگلے انتخابات کی فکر لاحق ہے۔

یہ سیاسی قائدین اتنا بھی نہیں سوچتے کہ عوام بچیں گے اور وہ خود زندہ رہیں گے تبھی کوئی ووٹ مانگنے اور دینے کی نوبت آئے گی۔ سیاسی بیان بازی کے درمیان عوام پس رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہاں بھی ویسے ہی مظاہرے ہوں گے جیسے بھارت میں بھوک اور کھانے کی اشیا کی عدم فراہمی پر ہوئے۔ وہ مرحلہ بھی سر پر آن پہنچا ہے جب کسی کا باپ ہسپتال کے باہر دم توڑ دے گا یا کسی کی ماں کو ہسپتال بیڈ فراہم کرنے سے انکار کرے گا اور وہ ان بے فیض عمارتوں میں توڑ پھوڑ کرنے اور انہیں آگ لگانے پر اتر آئے گا۔

یہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ ضرور کانپے لیکن ماضی میں جس قسم کے مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ ہم نے اس ملک میں دیکھے ہیں، ان مشاہدات کی بنیاد پر مجھ میں یہ بات لکھنے کی ہمت پیدا ہوئی۔

خدارا! حکومتوں اور ایوانوں میں بیٹھنے والے کرونا پر قانون سازی کریں، احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سزاؤں کا تعین کریں اور قوانین پر عمل درآمد کروائیں۔

پلازما عطیہ کرنے کے عمل کو حکومت خود ریگولیٹ کرے اور پلازما کے ضرورت مندوں تک پہنچنے کو یقینی بنائے۔ حکومتی کاوشوں سے انکار نہیں لیکن اگر ہم نے اپنے عوام اور ملک کو بچانا ہے تو ہمیں کوششیں اور تیز کرنی ہوں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ