ڈیم کی وجہ سے میری چائے بھی خراب بنتی ہے: تھر کی سیتا بائی

تھر میں گورانو کے مقام پر کول پاور پراجیکٹ کے تحت ڈیم کی تعمیر پر مقامی آبادی ناراض ہے کیونکہ اس ڈیم کی وجہ سے ان کے جینے کے وسائل ختم ہو رہے ہیں۔

جب 2016 تھر میں کول پاور پراجیکٹ کے تحت گورانو کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا تو تھر کی خواتین اپنے حقوق کے لیے گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئیں۔

اس احتجاج کو کئی ماہ و سال گزر گئے لیکن وہاں کے لوگ اب بھی اسی آس میں بیٹھے ہیں کہ کوئی مسیحا ان کی رودادسنے گا۔ اس ڈیم کے خلاف تب سے کیس چل رہا ہے جس پر تاحال کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔

گوراننو کی رہائشی سیتا منگل اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ وہ شروع سے ہی اس احتجاج کا حصہ رہیں اور 32ماہ تک اپنے گھر  سے دور اسلام کوٹ پریس کلب کے سامنے بیٹھی رہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو  سے بات کرتے ہوئے کہا  کہ وہ اپنا گھر بار اور نو بچے چھوڑ کر وہاں اس لیے گئیں کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اس ڈیم سے ان کے گاؤں کو نقصان ہوگا، لیکن کجا کہ شنوائی ہوتی  حکومت کے نمائندوں نے جھوٹے وعدے کر کے انہیں احتجاج ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔ 

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ گورانو ڈیم کا جہاں قیام عمل میں آیا ہے وہاں  ان کی زمینیں ہیں، جن پر سال کے چار ماہ کھیتی باڑی اورآٹھ  ماہ اس کا استعمال گاؤ چر کے طور پر ہوتا رہا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ترقیاتی کام شروع ہوا تو حکومت کے دباؤ ڈالنے پر یاس زمین کا جتنا حصہ لوگوں کی ملکیت تھا حکومت کو بیچی گئیں لیکن دیگروسائل نہ ہونے کی وجہ سے اب وہاں کے لوگ کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی نمائندوں نے  گورانو کے متاثرہ افراد کو  معاوضہ  ادا کرنے اور روزگار فراہم کرنے کا بھی کہا  تھا لیکن ابھی تک  ان پرمکمل  عمل نہیں کیا گیا۔ 

رات کی تاریکی میں لوگوں کے علم میں لائے بغیر اس علاقے میں ڈیم بنانے کاعمل شروع ہوا  اوراگلے دن  ان سے اس زمین کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔  یہ ڈیم پہلے دوکڑ چوک کے مقام پر بننا  تھا  لیکن بعد میں اسے یہاں بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

 قدرتی طور پر گورانو میں موجود زیرِزمیں پانی میٹھا ہے جو تھر جیسی جگہ پر کسی کرشمے سے کم نہیں اور کھیت کھلیانوں کے لیے نہایت مفید ہے،ڈیم بننے کی وجہ سے زیرِزمین پانی کھارا ہو جانے کے خدشات ہیں اور گاؤں کے کوؤں  میں پانی کی سطح بڑھ جانے  اور سیلاب آنے کے امکانات ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں  جن کی وجہ سے وہاں کے باسی اس ڈیم کی تعمیر کے سخت خلاف ہیں۔

اس افراتفری میں جب ملک بھر میں کرونا کی وبا نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں گورانو کے باسی اس بات  پرپریشان ہیں کہ گورانو ڈیم بننے کی وجہ سے  مچھر کی افزائشِ نسل میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے بچے مسلسل ملیریا کا شکار ہورہے ہیں۔ سیتا نے وائرس کے بارے میں سن رکھا ہے اور وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے علاقے میں جہاں عام بخار کا علاج محال ہے ،وہاں اس جان لیوا بیماری سے لڑنے کے لیے کیا لائحہ عمل ہوگا۔

سندھ حکومت نے  تھر میں12 بلا کس میں ترقیاتی کام کا فیصلہ کیا ہے  جس میں سے بلاک ایک اور بلاک دو میں کام کاآغاز ہو چکا ہے۔ گورانو ڈیم انہیں منصوبوں کا حصہ ہے۔   حکومت کے مطابق اس ڈیم کا مکمل حدود و اربا1500 ایکڑ پر مشتمل ہے لیکن وہاں کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ پانی2700 ایکڑ پر چھوڑا گیا ہے۔

سیتا جو کہ اس احتجاج میں پیش پیش تھیں. ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں ان سے کہا گیا کہ وہ احتجاج ختم کر دیں  کیونکہ ان کے تمام مطالبات مانے جائیں گے  اور انہیں  اس ڈیم سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا مگر تمام تر حقائق اس کے برعکس ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھر سال ہا سال قحط سالی کا شکار رہتا ہے جس کی وجہ سےیہاں لوگوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محکمہ صحت سندھ  کے مطابق ہر سال تھر میں1500 سے زائد بچے غذا کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

تھر دنیا کا ساتواں  بڑا صحرا ہے  اور  یہ دنیا کا واحد ذرخیزریگستان ہے۔اس خطے میں تقریباََتین ہزار سے زائد گاؤں آباد ہیں۔  یہاں کے اکثر لوگوں کا گزر بسر مال مویشیوں پر ہوتا ہے اور نوکری پیشہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین بسا اوقات کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور جانوروں کا خیال رکھتی ہیں۔  گورانو کا پانی میٹھا ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کھیتی باڑی کے لیے قدرے موضوں ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ وہاں کی خواتین کو  احتجاج کی  ضرورت کیوں پڑی؟ محسوس کی  مانو  کا کہنا تھا کہ' ہماری کل کائنات اسی زمین سے وابستہ ہے۔ ہمارے بچے صرف دودھ پی کر صحت مند رہ سکتے تھے ،ہماری خوراک صرف دودھ، دھی اور گھی ہے۔ اب وہ سہارا بھی ختم ہوگیا۔

'میرے پاس اب صرف ایک بکری ہے چونکہ چرانے کی جگہ نہیں رہی تو اب جانور کیسے رکھا جائے؟  'مانو کو یہ بھی شکایت ہے کہ ڈیم بننے کی وجہ سے ان کے پانی کے ذخائر کھارے ہورہے ہیں۔

پی پی ایچ آئی (پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹو) مٹھی سینٹر کے نمائندے نے بتایا کہ یہاں کی خواتین اور بچے اکثر بیماریوں کاشکار رہتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ خوراک کی کمی ہے۔

 کھارے پانی کے استعمال کے نقصانات پر ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ جلد کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہاں ہیضے کی بیماری  عام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

  گورانو کے رہائشی اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں لیکن اس صورتِ حال میں بھی لوگ ترقیاتی کاموں کی اہمیت سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ اپنے کیے ہوئے وعدے پورے کرے۔

لیلہ کہتی ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ بجلی بن رہی ہے، اس بجلی پر ان کا بھی اتنا حق ہے جتنا باقی کسی بھی پاکستانی کا، حکومت ان کو بے سہارا نہ چھوڑے۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ تھر پارکر میں کوئلے کی موجودگی پاکستان کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرے گا  لیکن وہاں کے لوگوں کے تحفظات کتنے حقائق پر مبنی ہیں، اس بارے میں  ایک وکیل اور  سماجی کارکن لیلا رام نے ، جو کافی عرصے سے گورانو ڈیم کے مسئلے سے منسلک ہیں، کہا کہ حکومت کو  صرف اور صرف  تھر کے کوئلے میں دلچسپی ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو کسی قسم کاہرجانہ دیے بغیر تھر سے کوئلہ نکال کر فائداٹھایا جاتا رہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں مٹھی میں منعقدہ ایک میٹنگ کا حوالہ بھی دیا، جس میں کول مائیننگ سائٹس پر پانی کی ترسیل کو یقینی بنائے جانے پر بات ہوئی لیکن  تھرکے کسی مقامی   کو اس میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا  اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کسی خطرے پر بات تک نہیں کی گئی۔

اس ساری صورتِحال میں جب حکامِ بالا سب کچھ آپس میں ہی طے کرلیتے ہیں  توگورانو ڈیم سے متعلق خواتین کا دیرنہ احتجاج بے ثمر ہوتا نظر آتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا