سندھ سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کنوینر سورٹھ لوہار نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ پانچ دن سے سندھ میں قوم پرستوں کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن جاری ہے جس کے دوران متعدد افراد کو جبراً گمشدہ کردیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سورٹھ لوہار نے بتایا: 'سندھ بھر سے گذشتہ پانچ روز کے دوران 50 سے زائد قوم پرست کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے۔ شاید یہ تعداد زیادہ ہو مگر ہمیں اب تک لاپتہ 40 کارکنان کی تصدیق ہوسکی ہے۔'
سورٹھ لوہار کے مطابق: 'گذشتہ پانچ دنوں کے دوران لاڑکانہ ضلع کے ڈوکری شہر سے قوم پرست کارکن امداد شاہ، زاہد شاہ اور راشد شاہ، باقرانی شہر سے عاشق جتوئی، توفیق جتوئی، فہیم جتوئی، موہن جو دڑو شہر سے طلبہ رہنما حفیظ پیرزادو، جامشورو ضلع سے قوم پرست کارکن امتیاز خاصخیلی، گھوٹکی سے قوم پرست رہنما اسرار گھوٹو، کاشف گھوٹو، مختیار بوزدار،کراچی سے جیے سندھ تحریک کے کارکن علی بھٹی، واحد بخش بروہی، مشتاق چولیانی، رتودیرو سے پاکستان پیپلز پارٹی(شہید بھٹو) کے کارکن لالا مسلم سہڑو اور لاڑکانہ شہر سے عمران منگی اور وسیم سولنگی کو جبری طور پر اٹھاکر لاپتہ کردیا گیا ہے۔'
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ گذشتہ دو دنوں کے دوران کراچی سے مزید تین قوم پرست کارکنوں نصیر تھہیم، اعجاز سرکی، شاہد نوتیار، سکھر سے تیمور کھوسو، جامشورو سے انعام کھوسو، حیدرآباد سے علی رضا ڈھیو اور شکارپور سے قدیر سومرو بھی گمشدہ ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی سے لاپتہ ہونے والے شاہد نوتیار کے بڑے بھائی حکیم نوتیار کراچی سے جون 2008 میں لاپتہ ہوگئے تھے، تین دن بعد ان کی مسخ شدہ لاش کراچی کے گلستان جوہر کے علاقے پہلوان گوٹھ میں ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے چہرے پر تیزاب پھینکا گیا تھا اور سر میں ایک گولی ماری گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سورٹھ لوہار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'سندھ سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بہت سالوں سے جاری ہے۔ اس دوران متعدد لوگوں کو لاپتہ کیا گیا، جن میں سے کئی لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، جبکہ کچھ افراد گھروں کو واپس بھی لوٹے، مگر 2017 سے اب تک سندھ میں 90 افراد گمشدہ ہیں، جن میں جسقم آریسر کے رہنما ایوب کاندھڑو، انصاف دایو،مرتضیٰ جونیجو، شاہد جونیجو، پٹھان خان زہرانی، مسعود شاہ، نوید مگسی، شادی خان سومرو، فتح محمد کھوسو، سہیل رضا بھٹی اور اعجاز گاہوشامل ہیں، جن کی بازیابی کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے سندھ بھر میں احتجاج چل رہے ہیں، جبکہ گذشتہ پانچ دنوں میں 50 سے زائد افراد کے لاپتہ ہوجانے کے بعد اب یہ تعداد بڑھ گئی ہے۔'
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ ہفتے سندھ میں رینجزر کی گاڑیوں پر دستی بم حملوں کے بعد مختلف شہروں سے قوم پرست کارکنوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ جمعے کی صبح صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں رینجزر کی گاڑیوں پر دستی بم حملوں میں ایک شہری اور دو رینجرز اہلکار ہلاک جبکہ دونوں حملوں میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوگئے تھے۔
ان حملوں کی ذمہ داری 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
اس سے پہلے منگل کی صبح کراچی کے ضلع ملیر کی حدود میں نیشنل ہائی وے کو سپر ہائی وے سے جوڑنے والے لنک روڈ پر واقع سمندری بابا کے مزار کے قریب سے سندھی قوم پرست رہنما نیاز لاشاری کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی، جو کئی روز سے لاپتہ تھے۔
سورٹھ لوہار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ ان جبری گمشدگیوں کے خلاف 26 جون سے سندھ میں احتجاج شروع کر رہی ہے جس کے تحت 26 جون کو لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے، 27 جون کو کراچی پریس کلب اور اتوار 28 جون کو حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جائے گا، جس میں مسنگ پرسنز کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کے رہنما اور کارکن بھی شرکت کریں گے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ اس 'غیر اعلانیہ آپریشن' کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کراچی کے ملیر پریس کلب کے ساتھ ساتھ بدین ، ٹنڈوباگو، میہڑ، فریدآباد، ڈوکری، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں گمشدہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاج جاری ہے۔
سورٹھ نے عالمی برادری، اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، یورپی یونین اور دیگر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کروایا جائے۔
جمعرات 18 جون کو جاری کیے گئے ایک بیان میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے جبری گمشدگیوں کو قانوناً جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق جبری گمشدگی ’دہشت گردی کا ایک طریقہ‘ ہے۔
تنظیم کے مطابق جبری طور پر غائب کیے جانے والوں کو تشدد اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے جبکہ رہائی کے بعد یہ افراد جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا شکار رہتے ہیں۔