تم بھی تو دلدار نہیں

پاکستانی میڈیا کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کشمیر پر سرے سے بات ہی نہیں کرتا اور خدانخواستہ اگر کبھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے سرکاری دباؤ ہوتا ہے یا عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے کی وجہ سے شرمسار ہو کر ذکر کرنا لازمی بن جاتا ہے۔

بھارت میں یہ تاثر گہرا ہے کہ وادی کی ہر چھوٹی بڑی خبر سرکاری ترازو میں تول کر پیش کی جاتی ہے(اے ایف پی)

جموں و کشمیر کے اکثر لوگ بھارتی میڈیا کے کٹر مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔

یہ تاثر گہرا ہے کہ وادی کی ہر چھوٹی بڑی خبر سرکاری ترازو میں تول کر پیش کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جھوٹ کے اس بوجھ تلے کشمیری آواز اور کشمیر کی حقیقت دب کر رہ جاتی ہے۔

جب پاکستانی میڈیا کی کشمیر رپورٹنگ کے بارے میں کشمیریوں سے پوچھا جاتا ہے تو یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کے بارے میں بھی عوام کی رائے بھارتی میڈیا سے مختلف نہیں ہے۔

یہ کالم آپ نعیمہ احمد مہجور کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

بقول ایک کشمیری صحافی جو ایک معروف بین الاقوامی اخبار سے وابستہ ہیں ’اگر عالمی میڈیا کے بعض ادارے نہیں ہوتے جو کشمیر کو کچھ جگہ دیتے ہیں تو برصغیر کو چھوڑ کر دنیا کی بقیہ چھ ارب آبادی کو کشمیر نام کی چڑیا کا پتہ بھی نہیں لگتا۔‘

اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بیشتر کشمیریوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ ہے جو اس وقت جذباتیت میں بہہ کر وبال جان بھی بن جاتا ہے۔ جب آپ اس ملک کے کرکٹ کے شیدائی ہونے کا اظہار کرتے ہیں یا عید کا چاند پاکستان اور کشمیر کے آسمان پر ایک ہی وقت دیکھنے کااعلان ہوتا ہے چاہے ہمارے مفتی اعظم نے چاند پہلے ہی کیوں نہ دیکھا ہو۔

میرپور کے ایک کشمیری دانشور راجہ حفیظ کہتے ہیں کہ ’مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتے کو بھولنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی۔ اس کا احساس برصغیر کی ڈیڑھ ارب آبادی کو بخوبی ہے۔ کچھ تو شاید مشترکہ ڈی این کا بھی چکر ہے کہ جو اس تعلق کو قائم رکھنے کی ترغیب دیتا آیا ہے حالانکہ پاکستانی سیاست دانوں کی  ہر دور میں ’متبادل پالیسیوں‘ کے منصوبوں اور اعلانوں نے کشمیر کو عالمی اور مقامی سطح پر بےانتہا نقصان پہنچایا ہے۔‘

میرے بہت سارے دوست ان کی اس کڑوی بات سے ناراض تو ہوں گے لیکن بحثیت ایک قوم ہمیں سچ کہنے اور سچ سننے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ یہ بدہضمی دور کرنے کا بہترین علاج ہے۔

بھارتی میڈیا کشمیری خبر کا محض ایک رخ پیش کرتا ہے۔ جو صرف اور صرف سرکاری ہوتا ہے۔ اس کے خلاف اب بات کرنا بھی جرم ہے۔

پاکستانی میڈیا کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کشمیر پر سرے سے بات ہی نہیں کرتا اور خدانخواستہ اگر کبھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے سرکاری دباؤ ہوتا ہے یا عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے کی وجہ سے شرمسار ہو کر ذکر کرنا لازمی بن جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ پاکستانی سیاست کی مسلسل اتھل پتھل میڈیا کو ہمیشہ مشغول رکھتی ہے لیکن جرنلزم کے اصولوں کے ناطے نہ سہی، کشمیر کو شہہ رگ بتانے کا لحاظ رہی رکھتے اور بلیٹن میں ایک آدھ منٹ وقف تو کرتے۔ پیمرا پر شہہ رگ کو یاد آوری کرانے کا نازک بوجھ نہ ڈالتے۔

پھر ستم یہ بھی کہ بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں کا بھارتی چینلز پر آ کر کشمیر پر بولنا اور تذلیل سے گزرنا... میں نے اکثر کشمیریوں کو اس وقت پاکستان کو کوستے سنا ہے۔ میں نےان سخن وروں کو سمجھایا بھی تھا کہ آپ اس ہزیمت کو کیوں برداشت کرتے ہیں لیکن وہ ہماری بات پر ناراض ہو کر ترک تعلق کر بیٹھے۔

میڈیا نے صحافت سے زیادہ اب تذلیل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ دانش مند لوگ اس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

کشمیری رپورٹروں کی نجی محفلوں میں آپ کو یہ ضرور سننا پڑے گا کہ ’اگر پاکستانی میڈیا پر بعض معتبر تبصرہ نگار آتے ہیں اور ہر موضوع کو سلیقے سے بیان کرتے ہیں تو بھارتی میڈیا پر یہ کون سے لوگ آتے ہیں جنہیں کشمیر کے حالات تو کیا، زبان سے بھی واقفیت نہیں۔ پھر وہ اس سب کی حامی بھرتے ہیں جو بھارتی چینلز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ برابر اسی طرح جس طرح را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے اسد درانی سے وہ سب کچھ کہلوایا جس کی پاکستانی فوج اور سیاست دان نفی کرتے  آئے ہیں۔‘

میں نے کئی بار کہنا چاہا کہ اسد درانی بھی اس وقت سے نظر نہیں آئے جب سے انہوں نے ’سپائی کران کلز‘ میں خود کو ہیرو بنانے کا خواب دیکھا تھا تو بعض صحافیوں کی نگاہیں مجھے گھورنے لگتی ہیں۔

میڈیا کی اپنی مجبوری ہوتی ہے مگر پاکستان میڈیا کی ڈبل مجبوری ہے۔ وہ کشمیر کے حالات سے نہ صرف خائف ہے بلکہ اس بات کو بھی نظرانداز کرتا ہے کہ ملک کا ایک طاقتور طبقہ موجود ہے جو جنونی حد تک اس کو شہہ رگ تصور کر رہا ہے تاہم اس کی ترجمانی کہیں پر نہیں ہوتی۔ جیسے وادی میں اکثریت کی رائے کو بھارتی میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔

معروف کالم نگار اور سینیئر صحافی وسعت اللہ خان اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بیشتر صحافیوں کو کشمیر اور کشمیر مسئلے کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ میڈیا کا بڑا حصہ سرکاری پریس نوٹ، اپوزیشن جماعتوں کے جوابی الزامات اور افسروں کی کارکردگی تک محدود ہوگیا ہے۔ تین سال میں پاکستانی میڈیا کی شبیہ بدل گئی ہے۔ کسی خبر کی گہرائی اور گیرائی اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پھر آپ وہ سب کچھ نہیں کہہ سکتے جو سرکاری پالیسی کے عین مطابق نہ ہو۔ ایسے میں کشمیریوں کو دعا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب دونوں طرف سے حالات ایسے ہوں اور اسی اثنا سعید علی شاہ گیلانی کل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے تو پس پردہ فیصلے کی وجوہات کی چھان بین کرنے کی بجائے دونوں ملکوں کا میڈیا سرکاری ترجمان کی طرح جنونی بن جاتا ہے۔

کون سمجھے گا میرے دل کو یا رب

کہ جس میں اب دھڑکن بھی نہیں ہے

کلگام میں حالیہ فوجی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی بہن کہتی ہیں کہ ’بھارتی میڈیا کے لیے میرا بھائی دہشت گرد تھا، پاکستانی میڈیا کے لیے مرد مجاہد، میرے لیے بس وہ تین بہنوں کا سہارا، والدین کا لخت جگر اور گاؤں کے لیے شریف النفس نوجوان تھا جس کو حالات نے اتنا مجبور بناودیا کہ روز روز مرنے کی بجائے اس نے ایک ہی بار عزت سے مرنے کو ترجیح دی۔ میڈیا کو ہمارے حالات کا اندازہ ہوتا تو سرکاری ترجمان کی بجائے ہمارے ترجمان بنتے، ہمارے حالات کو سنوارنے کے لیے آواز اٹھاتے، ہمارے نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف مہم شروع کرتے جیسے شیروں، جنگلی جانوروں اور سمندری حیات کو بچانے کی مہم چلاتے ہیں۔ ہمیں جانور سمجھ کر ہی ہمارے حقوق کی لڑائی میں شامل ہو جاتے۔‘

میں مقتول کی بہن سے کہتی کہ دراصل وہ زمانہ ہی نہیں رہا جب میڈیا معاشرے کا آئینہ دار ہوتا تھا۔ جب پریم چند کفن لکھتا تھا مہجور ’ولو ہا باغوانو‘ سے عوام کے دلوں کو گرماتا تھا یا اقبال عقابی روح سے مذہبی شعور کو جگاتا تھا۔ اب تو میڈیا کا بڑا حصہ ایک میگنیفینگ گلاس کی طرح ہے جس میں صرف سرکار کا بدترین اور بدصورت چہرہ نظر آتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ