بھارت کا مصنوعی سیارہ شکن میزائل کا تجربہ، پاکستان کو تشویش

بھارت نے مصنوعی سیارہ شکن میزائل کے ذریعے اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو خلا میں مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے

بھارت نے مصنوعی سیارہ شکن میزائل کے ذریعے اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو زمین کے قریب مدار میں مار گرانے کا پہلا تجربہ کیا ہے۔

بدھ کو اس تجربے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کا تجربہ ملک کو ’سپیس پاوور‘ ثابت کرنے کے لیے اہم پیش رفت ہے۔

قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ اس طرح کے ہتھیار کے استعمال کرنے والے ممالک امریکہ، روس اور چین کے بعد بھارت چوتھا ملک بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سائنسدانوں نے تین سو کلو میٹر دور خلا میں مصنوعی سیارے کو مار گرایا ہے۔ بھارت نے ایک انتہائی غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔

’خلا انسانوں کی مشترکہ میراث‘

بھارت کی جانب سے میزائل کے ذریعے سیٹلائیٹ کو ’کامیابی‘ سے مار گرانے کے اعلان نے پاکستان میں بھی تشویش پیدا کی ہے۔ 

اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے سخت خلاف ہے۔

‘ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’خلا انسانوں کی مشترکہ میراث ہے اور ہر قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے اجتناب کریں جن سے خلا میں فوجی سرگرمیاں بڑھیں۔‘

’ہم سمجھتے ہیں کہ خلا سے متعلق بین الاقوامی قوانین میں ان کمزوریوں کو دور کیا جائے جن سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی وہاں پرامن سرگرمیوں اور خلائی ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی کے استعمال کو خطرے میں نہ ڈال سکے۔‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے ماضی میں ایسی صلاحیت کے اظہار کی مذمت کی تھی وہ اب خلا میں فوجی خطرات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قوائد تیار کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

بیان کے اختتام پر بھارت کی جانب سے آج کے تجربے کا نام نہ لیتے ہوئے محض اتنا کہا کہ اس طرح کی صلاحیت کا اظہار 1605 میں لکھے گئے مشہور ہسپانوی ناول ’ڈان کیخوتے‘ کا حوالہ دیا جس میں ایک شخص خیالی دشمنوں کے خلاف لڑتا رہتا ہے۔

 

 

مصنوعی سیارہ شکن میزائل کی تاریخ

ایسے ہتھیار دشمن کے سیٹلائٹوں کو تباہ کرنے، انہیں غیر فعال کرنے کے علاوہ بیلسٹک میزائل حملے روکنے کی بنیادی ٹیکنالوجی بھی فراہم کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پہلا مصنوعی سیارہ شکن تجربہ امریکہ نے 1959 میں اُس وقت کیا جب سیٹلائٹس کا استعمال عام نہیں تھا۔

اِسی عرصے میں سویت یونین نے بھی ایسے ٹیسٹ کیے تھے۔

غیر منافع بخش ریسرچ تنظیم ’Union of Concerned Scientists‘ کے مطابق 1960 اور 1970کی دہائیوں میں سویت یونین نے ایک ایسے ہتھیار کا ٹیسٹ کیا جو مدار میں جا کر دشمن سیٹلائٹوں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر سکتا تھا۔

1985 میں امریکہ نے ایف-15 جنگی طیارے سے چھوڑے جانے والے ہتھیار  اے جی ایم-135 کا ٹیسٹ کیا تھا، جس نے سول ونڈ P78-1 نامی امریکی سیٹلائٹ کو کامیابی سے ہدف بنایا۔

اس کے بعد  تقریبا بیس سالوں تک ایسے ٹیسٹ نہیں کیے گئے۔ پھر 2007 میں چین بھی اس میدان میں کود پڑا اور ایک موسم کے تجزیے کے لیے استعمال ہونے والے پرانے سیٹلائٹ کو تباہ کیا۔

خلا کے پرامن اور دیرپا استعمال کے حامی گروپ ’Secure World Foundation‘ نے بتایا کہ چینی ٹیسٹ میں تباہ ہونے والے سیٹلائٹ کے 3000  ٹکڑوں کی صورت میں خلا میں کچرے کا تاریخی بادل بنا تھا۔

اگلے سال امریکہ نے Operation Burnt Frost میں بحری جہاز سے چھوڑے جانے والے SM-3  میزائل سے ایک ناکارہ جاسوسی سیٹلائٹ تباہ کیا تھا۔

خلائی کچرا

ہتھیاروں سے تباہ ہونے والے سیٹلائٹوں کے ٹکڑے مدار میں موجود دوسرے سیٹلائٹوں اور خلائی طیاروں کے لیے خطرہ بنتے ہیں، کیونکہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا بندوق کی گولی سے کئی گنا زیادہ رفتار سے خلا میں سفر کرتا ہے۔

عالمی خلائی سٹیشن ایسے ہی آوارہ ٹکڑوں سے بچنے کے لیے مسلسل اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے۔

2007 میں چین کا ٹیسٹ انتہائی تباہ کن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں سیٹلائٹ کے ٹکڑے زمین سےبہت اوپر 800 کلو میٹر خلا میں اڑتے رہے۔

اس کے برعکس 2008 میں امریکہ کا ٹیسٹ زمین کی سطح کے قریب ہوا جس کی وجہ سے زیادہ تر خلائی کچرا کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر گرا یا رستے میں ہی جل گیا۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ اس نے ٹیسٹ زمین کی سطح کے قریب کیا تاکہ خلا میں کچرا نہ پھیلے اور کچھ ہفتوں میں ہی زمین پر آن گرے۔

فوجی مقاصد کے لیے مدار میں موجود سیٹلائٹوں پر نظر رکھنے والے امریکی سٹریٹیجک کمانڈ نے بدھ کو ہونے والے بھارتی ٹیسٹ پر فوری ردعمل نہیں دیا۔

عسکری استعمال

جنگ میں انتہائی اہم خفیہ معلومات اور رابطے فراہم کرنے والے دشمن کے سیٹلائٹوں کو ہدف بنانا جدید صلاحیت تصور ہوتی ہے۔

بدھ کو کامیاب ٹیسٹ کے بعد بھارت نظریاتی حد تک دوسرے ملکوں بالخصوص پاکستان کے سیٹلائٹوں کے لیے ممکنہ خطرہ بن گیا ہے۔

 پڑوسی ملک پاکستان ماضی میں روسی اور چینی راکٹوں کی مدد سے متعدد سیٹلائٹ مدار میں چھوڑ چکا ہے۔

تاہم، چین جس نے صرف 2018 میں درجنوں سیٹلائٹ مدار میں چھوڑے، بھارتی ٹیسٹ سے زیادہ خطرہ محسوس کرے گا۔

Institute for Defence Studies and Analyses کے سینئر فیلو اجے لیلی نے بتایا کہ 2007 میں چین کے کامیاب ٹیسٹ کے بعد بھارت کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار بنائے۔

’میں کہوں گا کہ بھارت نے اس ٹیسٹ سے برصغیر کو ایک پیغام دیا ہے کہ ہمارے پاس خلائی جنگ کے لیے ہتھیار آ چکے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا