’کراچی میں کل سے لوڈ شیڈنگ ختم‘: یہ کون سے کل کا ذکر تھا؟

گذشتہ رات بھی کراچی کے کئی علاقے تاریکی میں ڈوبے رہے۔ اب بھی کراچی کے کم و بیش ہر علاقے میں مختلف دورانیے کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کا دورانیہ کم سے کم چار اور زیادہ سے زیادہ 10 گھنٹے ہے۔

اتوار کو ہلکی بارش کے بعد کراچی کے کئی علاقوں میں بجلی غائب رہی(اے ایف پی)

گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی، اصلاحات اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے ہفتے کے روز گورنر ہاؤس میں ہونے والے اہم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ کراچی میں بجلی کے مسائل حل کرنے کے لیے کے الیکٹرک کو ٹیک اوور بھی کرنا پڑا تو کر لیں گے۔

انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’کل سے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی‘، تاہم یہ نہیں بتایا تھا کہ کون سا کل، کیوں کہ کراچی میں اب بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

گذشتہ رات بھی کراچی کے کئی علاقے تاریکی میں ڈوبے رہے۔ اب بھی کراچی کے کم و بیش ہر علاقے میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کا دورانیہ کم سے کم چار اور زیادہ سے زیادہ 10 گھنٹے ہے۔

نامہ نگار رمیشہ علی کے مطابق اتوار کو ہلکی بارش کے بعد کراچی کے کئی علاقوں میں بجلی غائب رہی۔ ان علاقوں میں لانڈھی کورنگی، ملیر، ماڈل کالونی، کالا بورڈ، شاہ فیصل، محمود آباد، سہراب گوٹھ، سرجانی ٹاون، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، اورنگی، بلدیہ ٹاؤن، یونیورسٹی روڈ، جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی، گلشن اقبال اور گلستان جوہر شامل ہیں۔

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کی رہائشی فرحت علی کا کہنا تھا کہ ’اکثر کے الیکٹرک کی جانب سے موبائل پر لائٹ جانے کے حوالے سے میسیج موصول ہوجاتا تھا کہ اتنے بجے یا اتنے سے اتنے گھنٹوں تک آپ کے علاقے میں بجلی نہیں ہوگی لیکن اب عموماً بغیر اطلاع کے بھی لائٹ چلی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ تنگ آکر ہم نے ہزاروں روپے کا یو پی ایس اور بیٹری لگوایا ہے جس سے اب تھوڑا بہت سکون ہے۔‘

شہریوں کی جانب سے یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کی ہیلپ لائن پر کال کریں تو جواب نہیں ملتا۔ نمائندوں کے مصروف ہونے کی وجہ سے کافی دیر تک کال ویٹنگ پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ٹوئٹر پر شکایت کریں تو ہر بار وہی جواب ملتا ہے جیسے کوئی روبوٹ بٹھایا ہوا ہو۔'

کراچی کے شہریوں کے لیے سوشل میڈیا پر کے الیکٹرک اور لوڈشیڈنگ کے حوالے سے شکایات کرنا معمول بن گیا ہے۔ لوگ ان پوسٹس میں اپنا علاقہ، لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اور غصے میں تین چار غیر اخلاقی باتیں لکھ کر اپنی مشکلات کا اظہار کرتے ہیں۔

سیاسی اور سماجی جماعتوں کے لیے یہ خود کو خبروں میں ان رکھنے کا بھی ایک اچھا بہانہ ہے۔ متعدد این جی اوز اور سیاسی جماعتوں مثلا جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی جانب سے گذشتہ ہفتے کافی احتجاج کیا گیا۔

ہفتے کے روز گورنر ہاؤس میں سی ای او کے الیکٹرک سید مونس عبداللہ علوی نے بتایا کہ شہر کو 2950 میگاواٹ بجلی کی ترسیل جاری ہے جبکہ اب بھی شہر میں 250 میگا واٹ بجلی کا شارٹ فال ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’وفاق کے الیکٹرک کو مزید 500 ٹن فرنس آئل دے سکتا ہے جب کہ بن قاسم پاور پلانٹ کو فرنس آئل پر چلایا جاسکتا ہے جس سے سسٹم میں 190 میگا واٹ شامل ہوجائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کے الیکٹرک اگلے تین سال میں 2100 میگا واٹ بجلی سسٹم میں ڈالنے کے منصوبے پر فوری کام کرے، اگر رویہ درست نہ ہوا تو وفاق کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔‘

تاہم کراچی میں لوڈشیڈنگ کے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے ترجمان وزارت توانائی کا کہنا تھا کہ فیول کی عدم فراہمی کی وجہ سے کراچی میں لوڈشیڈنگ کا دعویٰ غلط ہے۔ کے الیکٹرک نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کہ انہیں 290 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے، اس لیے ایندھن فراہمی کو لوڈشیڈنگ کے ساتھ جوڑنا کراچی کے عوام سے حقائق چھپانے کے مترادف ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ پٹرولیم ڈویژن کی مداخلت سے ملکی پیداوار کا 80 فیصد فرنس آئل کے الیکٹرک کو مل رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے بجلی تقسیم کار سسٹم میں ضرورت کے تحت سرمایہ کاری نہیں کی، اگر وفاقی حکومت زیادہ بجلی بھی دے تو کے الیکٹرک کو سسٹم اپ گریڈ کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان